دہشت گردی اور معیشت پر اثرات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پاکستان میں دہشتگردی کی تاریخ انتہائی پیچیدہ ہے، جس نے ملکی سلامتی، معیشت اور سماجی ہم آہنگی کو گہرے زخم دیے ہیں۔ 2000 کے بعد دہشتگردی کا نیا دور شروع ہوا جو 2009 میں اپنے عروج پر پہنچا۔ اس عرصے کے دوران دہشتگرد گروپوں نے خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے جہاں سے وہ اپنی مذموم کارروائیاں کرتے رہے۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے کئی کامیاب آپریشنز کیے ہیں جن میں آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد نمایاں طور پر سرفہرست ہیں۔ ان آپریشنز نے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور ملک بھر میں ان کے نیٹ ورک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ 2014 میں شروع ہونے والے ملک گیر آپریشن نے دہشتگردوں کی سرگرمیوں کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے 2022 کے بعد دہشتگردی نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا اور 2023 میں دہشتگرد حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
دھشت گردوں کے فتنے کے خلاف سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیاں قابل تعریف ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقوں متنی، مہمند اور کرک میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشنز کے دوران 19 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان آپریشنز میں سکیورٹی فورسز کے تین جوان شہید ہوئے جو قوم کے لیے ناقابل فراموش قربانی ہے۔
آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق یہ آپریشن نہایت منظم انداز میں کیے گئے، جنہوں نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ فورسز نے خفیہ ٹھکانوں کی تلاش اور دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ ماہ بھی دو دھشت گردوں کے کمانڈروں سمیت 33 دہشتگرد ہلاک کیے گئے تھے۔
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ قوم فورسز کی بہادری اور جرات کو سلام پیش کرتی ہے۔ یہ عوامی حمایت سکیورٹی فورسز کے لیے ایک اہم اخلاقی سہارا ہے جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہے۔
دہشتگردی نے پاکستان کی معیشت، سیاست، اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ معاشی نقصان، خوف کا ماحول اور سماجی انتشار دہشتگردی کے بڑے اثرات میں شامل ہیں۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز کی کوششوں نے دہشتگردوں کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے، لیکن اس ناسور کا مکمل خاتمہ تبھی ممکن ہوگا جب تمام متعلقہ ادارے اور عوام مل کر اس چیلنج کا سامنا کریں۔
پاکستان دہشتگردی کے خلاف ایک طویل اور کٹھن جنگ لڑ رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی قربانیاں اور ان کی کامیابیاں قابل ستائش ہیں۔ قوم کو متحد ہو کر دہشتگردوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ مستقبل میں ایک جامع حکمت عملی، عوامی تعاون اور موثر قیادت ہی دہشتگردی کے خاتمے کا ضامن بن سکتی ہیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |