سیدزادہ سخاوت بخاری
تحریر کے عنوان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیمبل پور کیسا ہوگا ، جس کی شان میں میرے مانموں ، پنجابی زبان کے نامور شاعر اور فرزند کیمبل پور ، مرحوم حکیم تائب رضوی نے اتنی پیاری نظم لکھی ۔
کیمبل پور کے عشق میں ڈوبی ان کی اس نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو
” سر چک کے ڈولا لسی دا
نی اڑئیے انج نہیں نسی دا
وچوں بھانویں دل پیا رووے
اتوں کھڑ کھڑ ھسی دا
ذرا ہولی ہولی تر کڑئیے
تیرا جیوے کیمبل پور کڑئیے
یہ نظم اس وقت لکھی گئی جب کیمبل پور ایک چھوٹا سا ، صاف ستھرا ، پرامن اور خالص کیمبلپوریوں کا شھر تھا ۔ ابھی دوسرے صوبوں اور شھروں سے نقل مکانی کرکے لوگ یہاں نہیں پہنچے تھے ۔ آبادی اتنی کم کہ شھر بھر کے لوگ ایک دوسرے سے شناسا ، خوشی اور غم میں شریک ، دکھ سکھ کے ساتھی ۔
ؓانگریزوں اور ھندووں کے بسائے ہوئے اس شھر کے نقشہ نویس کا تو علم نہیں لیکن داد دینے کو جی چاھتا ہے ۔ ہر گلی سیدھی ، آبادی چھوٹے چھوٹے بلاکس میں تقسیم ، ہر بلاک کے مرکزی چوک میں پانی کا کنواں اور اس کے گرد سماجی تقریبات کے لئے چاروں طرف کشادہ جگہ ۔ تقریبا تمام گھروں کی اونچائی ایک جیسی ، پتھر کی سیڑھیاں اور مٹی کی اینٹوں سے پختہ کی گئیں گلیاں ، کسی فلم کا نظارہ پش کرتی تھیں ۔
گزشتہ چند برسوں میں مجھے مشرقی یورپ کے ان چند ممالک میں جانے کا موقع ملا جو کبھی کمیونسٹ سوویٹ یونین کا حصہ تھے ۔ یقین جانئیے کئی شھروں کے نقشے ، گلیاں ، اینٹوں سے بنی عمارتیں ، ڈیوڑھیاں ، جھروکے ، کوکے دار دروازے ، پتھروں سے پختہ کی گئی سڑکیں اور راھداریاں دیکھ کر شک سا ہونے لگا کہ میں
تبلیسی ، باکو ، یراوان اور اصحاب کہف کے شھر نخچیوان میں کھڑا ہوں یا کیمبل پور کی گلیوں میں گھوم رھا ہوں ۔ یہ گمان اور تصور اس لئے پیدا ہوا کہ جس کیمبلپور میں ، میں نے آنکھ کھولی ، بچپن اور لڑکپن گزارا وہ اپنی طرز تعمیر ، تصویر اور تطھیر کے اعتبار سے کسی قدیم یورپی شھر سے کم نہ تھا ۔
کاش کوئی مجھے میرا کیمبل پور واپس لوٹادے ۔ اب تو یہاں تولہ رام بلڈنگ کے علاوہ کچھ بچا ہی نہیں ۔ سنا ہے اس تاریخی عمارت کو زبح کرنے کے لئے بھی چھریاں اور ٹوکے تیز کئے جارہے ہیں ۔
شھر کی اصلی اور مکمل تصویر
ان شاء اللہ آپ میری زیر تکمیل کتاب
” کیمبل پور سے اٹک تک ” میں دیکھ سکیں گے جسے ابتک چھپ جانا چاھئیے تھا لیکن بیرون ملک اقامت اور کورونا کی وجہ سے سفر پر پابندیوں نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔
۔
آج کا مضمون اس خبر کے زیر اثر تحریر کررہا ہوں جس کے مطابق چند رکشا ڈرائیوروں اور دوکانداروں کے مابین ایک جھڑپ ہوئی اور نتیجتا کمیونٹی دو حصوں میں بٹ گئی ۔ کچھ لوگ رکشا والوں اور کچھ دوکانداروں کی حمائت میں سامنے آئے ، لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ کوئی ایک فرد بھی شھر کی حق میں بات نہیں کررہا ۔
رکشا والوں اور دکانداروں کی باالآخر صلح ہوجائیگی ۔ دکاندار مال بنانے میں مصروف ہوجائینگے اور رکشاء والے حسب دستور شھر بھر کی ٹریفک میں خلل ڈالنے کا فریضہ انجام دیتے نظر آئینگے ۔ میں پورے یقین سے یہ بات کہ سکتا ہوں کہ اصلاح کا کوئی پہلو نہیں نکلے گا۔ یہ سب وقتی ابال اور باتیں ہیں ۔ شھر کے نظم و نسق پہ پہلے کسی نے توجہ دی اور نہ آئیندہ دے گا ۔ یہ لاوارث شھر ہے ۔ اس کا کوئی والی وارث نہیں ۔ اگر میری بات درست نہ لگے تو بتائیے کیا اس شھر میں بلدیہ نام کا کوئی ادارہ نہیں ؟ کیا یہاں ٹریفک پولیس اور دیگر انتظامی محکمے موجود نہیں ۔ ایوب خان کے دور سے لیکر نوازشریف کے آخری دور تک بلدیاتی انتخابات ہوتے رہے ۔ لوگ ممبر ، کونسلر اور چیئرمین بنے لیکن شھر کی حالت سدھرنے کی بجائے بگڑتی ہی چلی گئی ۔
جو آیا , تصویروں کے ساتھ ساتھ مال بنایا اور حاجی صاحب بن کر رخصت ہوگیا ۔ دنیاء کے ہر شھر کا ایک ماسٹر پلان ہوتا ہے جس کے مطابق اسے وسعت دی جاتی ہے لیکن یہاں تو ہر طرف خان ہی خان نظر آتا ہے ، پلان نام کی کوئی شے موجود نہیں ۔ مقامی نو دولتیوں کے ساتھ ساتھ غیر مقامی اور دور دراز سے آئے افراد نے اس کے تعمیراتی حسن کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ۔ اور اگر کوئی کسر باقی تھی تو وہ افغانی پناہ گزینوں نے پوری کردی ۔ صاف ستھرا شھر غلاظت اور کوڑے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوگیا ۔
ہم تاریخ کے جبر سے اپنے آپ کو آذاد نہیں کراسکتے ۔ وقت اور زمانہ بدلتا ہے تو ذرائع نقل و حمل بھی بدل جاتے ہیں ۔ بیل گاڑی اور تانگے سے آٹو موبیل تک آنا وقت کی ضرورت تھی لیکن کیا کسی نے ان نئی ایجادات کے استعمال اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل پہ بھی توجہ دی ۔
چھوٹا سا شھر ، مسافروں سے زیادہ رکشے ، موٹر سائیکلوں کا سونامی ، ریڑھی بانوں کے غول ، ٹریکٹر ٹرالیاں اور اس بیچ ادھر ادھر بھاگتے افغانی ، کبھی کبھی تو یہ احساس دلاتے ہیں کہ شاید ہم کوئی بھیانک خواب یا کسی دست بہ دست جنگ کی ڈاکومینٹری دیکھ رہے ہیں ۔
اگرچہ اس شھر کے بانی انگریز تھے اور آبادی کی اکثریت ھندووں پر مشتمل تھی لیکن جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو یہاں مقامی اور مہاجر مسلمانوں کا دور دورہ تھا ۔ پرانے شھر میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی تھی مثلا اس مقام کو لے لیں جہاں رکشا اور دکاندار جھگڑا ہوا ۔ اسے صدیقی روڈ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ شرقا غربا سول بازار سے لیکر آخر تک شیخ صدیقی قبیلے کے لوگ آباد تھے جن میں اکثریت وکیل اور سول سروس سے وابستہ افراد کی تھی ۔ ہر دوسرے گھر پر آویزاں نام کی تختی پہ لفظ علیگ لکھا ہوتا تھا یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل لیکن اتنے سادہ لوگ کہ موسم گرما میں رات کو اسی سڑک کنارے بان کی چارپائیاں بچھا کر سوجاتے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ شیخ فداحسین مرحوم نقشہ نویس کی چارپائی کی پائینتی کی طرف مٹی کا گھڑا مع پیالہ (بٹھل ) رکھا ہوتا تھا ۔ چونکہ اس وقت تک ٹی وی اور اس کے پوتے سوشل میڈیا نے جنم نہیں لیا تھا لھذا چارپائیوں پر لیٹ کر گپ شپ اور دن بھر کی خبریں ایک دوسرے سے شئیر کی جاتی تھیں ۔ ایک وہ زمانہ کہ لوگ سڑک کنارے چین کی نیند سوتے تھے اور اب گھر کے اندر بھی رکشاء ، سوزوکی اور موٹرسائیکل کا شور سکون سے سونے نہیں دیتا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کسی کارخانے میں سورہے ہیں جہاں ہر طرف مشینیں ہی مشینیں اور ان کا شور ہے ۔ وہ صدیقی روڈ جو کبھی اھل علم و دانش اور شرفاء کا مرکز تھا آج رکشاوں کے شور اور دھوئیں تلے دب چکا ہے ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہماری نئی نسل کے جوان سوشل ورک کی طرف راغب ہیں اور عوامی مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں ۔ میری ان تاذہ دم نوجوانوں سے اپیل ہے کہ افراد کے ساتھ ساتھ اپنے شھر کیمبل پور کی شکل و صورت ، صحت و صفائی اور تاریخ کے تحفظ پہ بھی توجہ دیں ۔ پرانا شھر مٹ رہا ہے ۔ تاریخی عمارات پلازوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔ مہذب قومیں پرائیویٹ تاریخی عمارات کو بھی خرید کر قومی اثاثے کے طور پر محفوظ کرلیتی ہیں تاکہ آنیوالی نسلیں اپنی تمدنی تاریخ سے آگاہ ہوسکیں ۔ اس وقت شھر میں دو عمارتیں تولہ رام بلڈنگ اور رئیس خانہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ انہیں مٹ جانے سے بچا لیا جائے ۔
پلیڈر لائین میں تاریخی عمارت رئیس خانہ ، ڈسٹرکٹ کونسل ، بلدیہ اور شھر کے سیاسی ذعماء کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں کھنڈر بن چکی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کی بحالی اور تزئین و آرائیش کے لئے آواز اٹھاکر اسے ایک کمیونٹی سینٹر میں تبدیل کردیا جائے ۔ اس طرح عمارت بھی بچ جائیگی اور شھریوں کو ایک کمیونٹی سینٹر بھی دستیاب ہوگا ورنہ کچھ ہی عرصے میں سیاست دانوں کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے مالیت کی یہ عوامی پراپرٹی اونے پونے فروخت ہوکر پلازہ میں تبدیل ہوجائیگی ۔
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔