رفیق عالم کی حمد کا فنی و فکری مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]
رفیق عالم کی اردو حمد میں جابجا عقیدت اور شکرگزاری کا گہرا اظہار ملتا ہے۔ بہترین حمدیہ اشعار کے ذریعے رفیق عالم روحانی تعلق کے جوہر کو سمیٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو کہ الٰہی قدرت کی ہمہ گیریت اور احسان کو اجاگر کرتا ہے۔
حمد کا آغاز خداوند عزوجل کے فضل و کرم کی شاندار عکاسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو زمینی اور آسمانی دائروں سے ماورا ہے۔ رفیق عالم کی منظر کشی خوف کا احساس پیدا کرتی ہے، خدا کو کائنات کے مالک و مختار اور قادر و مطلق پروردگار کے طور پر پیش کرتی ہے، وہی خدا ہے جو سمندروں کے بہاؤ اور جہازوں کو کنٹرول کرتا ہے، آسمانوں، سورج، چاند اور ستاروں کی حرکت کی رہنمائی کرتا ہے۔ جو الله کے حکم سے اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔
تمام اشعار میں رفیق عالم خدا کی قادر مطلق ہونے پر زور دیتے ہیں اور اسے تمام مخلوقات کے مالک و مختار کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ "تری ہی فضل کا چرچا ہے” اور "ترا ہی نور چمکتا ہے” جیسے فقروں کی تکرار الٰہی حاکمیت اور روشنی کے موضوع کو تقویت دیتی ہے۔
مزید برآں رفیق عالم کی حمد عاجزی اور خدا کی رحمت پر انحصار کا احساس دلاتا ہے۔ پھولوں کے کھلنے اور دلوں کو خُدا کی خوشبو میں سکون ملنے کی منظر کشی روحانی سکون اور الہٰی قدرت پر بھروسہ کرنے کا گہرا احساس دلاتی ہے۔
زبان اور منظر نگاری پر رفیق عالم کی مہارت پورے حمد میں عیاں نظر آتی ہے جس کا ہر شعر قاری کی روح میں گہرائی سے اترتا ہے۔ الہٰی صفات کے ساتھ قدرتی عناصر کا ملاپ زمینی حسن اور آسمانی عظمت کا ہم آہنگ امتزاج پیدا کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفیق عالم کی اردو حمد ایک شاعرانہ شاہکار ہے جو خدا کی عظمت اور رحمت کے بارے میں شاعر کے پکے عقیدے کی نشانی ہے۔ فصیح و بلیغ اشعار اور بہترین منظر کشی کے ذریعے رفیق عالم قارئین کو فکر اور تعظیم کے روحانی سفر پر مدعو کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں خوف اور شکرگزاری دونوں کا دائمی تاثر ملتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے رفیق عالم کی حمد شریف پیش خدمت ہے۔
*
حمد باری تعالیٰ
*
زمیں کے ذروں پر اور آسماں کے تاروں پر
ترا کرم ہے خدا یکساں سب نظاروں پر
ہیں تیرے قابوں میں دریا کی سر پھری موجیں
بھنور سے کشتیاں لاتا ہے تُو کناروں پر
نظام توہی چلاتا ہے سب جہانوں کا
ستارے کرتے ہیں گردش ترے اشاروں پر
ترے ہی فضل کا چرچا ہے ہم فقیروں میں
تری ہی چشمِ عنایت ہے تاج داروں پر
مہک رہے ہیں سبھی پھول تیری خوشبو سے
جلال تیرا نمایاں ہوا ہے خاروں پر
تجھی سے آس لگائے ہوئے ہیں ہم مولی
کرم کی بوند ہی پڑجائے غم کے ماروں پر
بنادے پل میں بیاباں تُو چاہے گلشن کو
ترا ہی حکم خزاں پر ہے اور بہاروں پر
دیا تھا تین سو تیرہ کو حوصلہ تونے
کیا تھا تونے ہی حاوی انھیں ہزاروں پر
تری ضیا کی بدولت ہی دن ہوئے روشن
ترا ہی نور چمکتا ہے شب میں تاروں پر
یہی دعا ہے خدا تجھ سے سارے عالم کی
کرم کی ایک نظر ہم گناہ گاروں پر
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔