ارسلان کبیر کمبوہ کا پنجابی زبان میں شعری مجموعہ "راز” کا فنی و فکری جائزہ
پنجاب کے دل ملتان کے ادبی منظرنامے میں ایک ادبی جوہر ارسلان کبیر کمبوہ کے نام سے ادبی منظر نامے میں جگمگا رہا ہے، "راز” پنجابی زبان کا ایک شعری مجموعہ جسے ممتاز شاعر ارسلان کبیر کمبوہ نے لکھا ہے۔ آپ کی شاعرانہ مہارت اور ادبی خدمات کے لیے انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے، ارسلان کبیر کمبوہ کا تعلق ضلع خانیوال کی تحصیل کبیر والا کے مولا پور ٹاؤن سے ہے۔ اس کتاب کو کرن کرن روشن پبلشرز نے بزم فیض کمبوہ ملتان کے اشتراک سے شائع کیا ہے، شعری مجموعہ "راز” پنجابی شاعری سے مزین جس میں کمبوہ قوم کی بھرپور ادبی روایت اور کمبوہ برادری کے ترانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ارسلان کبیر کمبوہ نے اس کتاب کا انتساب اپنے پیارے والد چوہدری ممتاز احمد کمبوہ، اپنی والدہ، اور پوری کمبوہ قوم کے نام کیا ہے۔ یہ انتساب شاعر کا اپنے والدین کے لیے دلی لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو مصنف کے اپنے خاندانی اور ثقافتی جڑوں سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔
"شعری مجموعہ راز” کا پیش لفظ ملک محمد عمر کمبوہ نے لکھا ہے، جو ملتان میں ہائی کورٹ کے وکیل اور بزم فیض کمبوہ ملتان کے صدر ہیں۔ ان کے الفاظ ارسلان کبیر کمبوہ کی پنجابی زبان میں ادبی خدمات کو سراہتے ہیں اور علاقائی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس شعری مجموعے کو تبصرہ نگاروں کے ایک پینل کی جانب سے کافی پذیرائی ملی ہے، جن میں چوہدری اختر رسول کمبوہ، ریاض حسین ارم، محمد اظہر سلیم مجوکہ، چوہدری شہباز احمد کمبوہ، چوہدری عبداللطیف کمبوہ، عمران محمود اترہ، تہمینہ حمید، اور ملک جہاں علی شامل ہیں۔ ہر تبصرہ نگار نے ایک منفرد نقطہ نظر پیش کیا ہے، جو "راز” میں دریافت کیے گئے متنوع موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں۔
"راز” کا آغاز ایک خوبصورت اشعار کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں حمد باری تعالیٰ اور نعت شریف شامل ہیں۔ شاعر نے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی ہے، جن میں حضرت علیؓ، حضرت امام حسینؓ، پنجتن پاک، والدین، وطن، پاک فوج، قومی زبان، کشمیر، قومی ہیروز، تعلیم، اور کمبوہ قوم کا ترانہ شامل ہیں۔ ارسلان کبیر کمبوہ ان موضوعات کو خوبصورتی کے ساتھ شاعری میں بیان کیا ہے۔
پنجابی شعری مجموعہ "راز” کے اندر پیش کیے گئے شاعری کے اندر انسانی تجربے کی پراسرار نوعیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ شاعر اپنے شعری مجموعے کے دیباچے میں اس مجموعے کے پیچھے اپنے مقصد کو بیان کیا ہے اور اپنے خیالات، احساسات اور مشاہدات کو ایک پرجوش شعری مجموعے میں تبدیل کرنے کی مخلصانہ خواہش کا اظہار کرتا ہے جو کہ ہر عمر کے قارئین کو پسند ہے۔ ارسلان کبیر کمبوہ "راز” کو عملی جامہ پہنانے میں اپنے اساتذہ، والدین، دوستوں اور خیر خواہوں کی انمول رہنمائی کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ملک محمد عمر کمبوہ کے لکھے ہوئے پیش لفظ میں ارسلان کبیر کمبوہ کے ذریعہ اظہار کے طور پر پنجابی زبان میں شعری مجموعے کی تعریف کی گئی ہے۔ کتاب میں اردو اور پنجابی زبان میں تبصرے شامل کیے گئے ہیں جو لسانی تنوع کا اعتراف اور ثقافتی شناخت کا تحفظ دیباچے میں نظر آرہا ہے، جس سے ادب میں علاقائی زبانوں کی اہمیت کو تقویت ملتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ارسلان کبیر کمبوہ کا پنجابی شعری مجموعہ "راز” صرف ایک شعری مجموعے ہی نہیں بلکہ شناخت، ثقافت اور انسانی تجربے کی گہرے کھوج کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ارسلان کبیر کمبوہ اپنی روایتی شاعری کو عصر حاضر کے ساتھ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کمبوہ قوم کے لسانی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کی لگن نے "راز” کو پنجابی ادب میں ایک قابل ذکر اضافہ بنا دیا ہے، میں ارسلان کبیر کمبوہ کو پنجابی زبان میں اس شعری مجموعے کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔