کرنل (ر) سیّد سجاد نقوی سائیکا ٹرسٹ
برادر عزیز جنابِ مونس رضا کی عظیم کاوش پہ رائے دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے خود کو فاضل قرار دینا۔ بہرحال چند پرخلوص الفاظ نذر ہیں۔
علم الانساب بلاشبہ بہت محترم اور ہر دور کا رائج علم ہے، عرب ہی اس فن کے بانی اور اس علم میں ممتاز تھے، اجدادِ ختمی مرتبتؐ میں ہر دور میں اس علم کے ماہر موجود رہے، دورِ رسالت مآبﷺمیں حضرت ابو طالب علیہ السّلام علم الانساب کے ماہر اور نقیب تھے اور ان کے بعد جنابِ عقیل ابنِ ابوطالب علیہ السّلام اس علم کے وارث ہوئے۔
برصغیر میں یہ علم عرب سے ہجرت کر کے وارد ہونے والے سادات کے ذریعے ہی داخل ہوا، وہ لوگ اپنے شجرات اور تاریخ اپنے ساتھ لائے اور اسے مزید لکھتے بھی رہے، برصغیر میں انساب و تاریخ نویسی کی کتابی شکل میں ابتدا ساتویں صدی ہجری سے ملتی ہے مبارک شاہ حسینی نے قطب الدین ایبک کے دور میں بحرالانساب کے عنوان سے کتاب لکھی جسے برصغیر میں اس موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے، اور پھر گذشتہ دو صدیوں میں تو یہ علم باقاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکا ہے اور جنابِ مونس رضا نے بھی جدید سائنسی خطوط پر تحقیق کی ہے جوکہ یقیناً قابلِ ستائش عمل ہے ۔
ہجرتوں کو مہاجر سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے۔ ان کی ضرورت و افادیت کے ساتھ ساتھ کلفت و حزیمت۔۔۔۔گو کہ ہجرت کے بہت سارے رنگ و رخ ہیں۔ طََلَعَ الْبَدْرُعَلَیْنَا کی تھاپ میں یثرب کو مدینہ منورہ اور خون شہیداں سے نینوا کو کربلا معلی ہجرتوں نے ہی تو بنایا۔ میں خود ربع صدی قبل اٹک کی نگری میں بطور مہاجر وارد ہوا اور اس سرزمین اور اس کے باسیوں نے بالعموم اور کامل پور سیداں نے بالخصوص اپنائیت و اخوت کا سائبان تان دیا آج تک روح محبت و یگانگت کے رواں چشموں سے سیراب ہے۔ جناب مونس رضا کی ذات اس بستی کے علمی و ادبی ذوق کا ایک روشن عکس ہے۔ اس مختصرمگر انتہائی جامع کتاب میں انہوں نے نہ صرف معصومین علیہم السلام کی ہجرتوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا بلکہ نئی نسل کو تاریخِ اجداد سے متعارف بھی کروایا۔۔۔اسلاف کی پہچان بلاشبہ اصلاح و عروج کا باعٹ بنتی ہے۔ تحریر کی روانی اور عربی و فارسی کا شیریں امتزاج بلا شبہ جنابِ مونس رضا کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا ثمر ہے۔ سو اس تاریخ و ادب کے چشمہ علم سے ہم بھی سیراب ہوئے۔ اور اُمید ہے کہ آپ بھی اِن شآء اللہ مُستفید ہوں گے، اللہ تعالی مونس بھائی کی علمی صلاحیتوں کو اور زیادہ جِلا بخشے اور ہمیں مزید علمی خزانوں سے آگاہی ہو۔
سجاد نقوی البُخاری
اٹک
تقریظ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔