زُبانِ شِیریں مُلک گِیری

تحقیق : شاندار بخاری

مسقط

1442 ھ

آج کل موسم بدل رہا ہے اور میں کیونکہ ایک گرم ملک میں مقیم ہوں اس لئیے کچھ زیادہ ہی ٹھنڈ محسوس کرتا ہوں اس بات سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ جانے انجانے چاہتے نا چاہتے ہمارے ماحول کا ہم پر اثر ہوتا ہے ۔ صفائی نصف ایمان ہے یہ ہمیں بچپن سے دکھایا جاتا ہے لیکن اس کا عملی نمونہ ہمیں وہاں دکھائی دیتا ہے جہاں دکھا یا نہیں جاتا تو نتیجہ یہ نکلا کے کہنے اور کرنے میں فرق ہے یہ مثال بھی آج اپنی اصل شکل میں میں آپ کےسامنے لے آیا ہوں شکریہ آپ کی تالیوں کا ۔ اگر ہم اپنے ماحول کو صاف رکھیں تو ماحول خوشگوار ہونے کیساتھ ساتھ ہمارے مزاج کا موسم بھی خوشگوار رہے گا اور اس کا مثبت اثر ہم سے جڑے لوگوں اور ان کے ہمارے ساتھ اور آگے ان سے جڑے لوگوں کیساتھ رویوں پر بھی پڑتا ہے ۔اگر آپ دفتر یا گھر میں کسی کو جھڑک دیں گے تو اس شخص میں اگر آپ کو جواب دینے کی ہمت نہیں احترام یا باعث مجبوری تو وہ آگے اپنے ماتحتوں سے بھی اسی رویے سے پیش اے گا اور ایک سلسلہ چل پڑے گا اب بجائے مسئلہ حل ہونے کہ مسائل میں تبدیل ہوجائے گا اور سب کا دن بڑا گزرے گا تو بات کرتے ہوئے کسی مسئلہ کو حل کرتے ہوئے اسے افھام و تفہیم سے حل کریں بےشک اگر کسی کی غلطی ہو اسے پہلے سن ہیں پورا موقع دیں اور پھر دانشمندی سے فیصلہ کریں کہ بات سمجھ میں آ جائے اور کسی کی دل ازاری بھی نا ہو مجھے یہاں ایک شاعر کا واقع یاد آگیا ” رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریؐم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے ۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پھینک دیا ۔

شاندار بخاری
شاندار بخاری

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا ” اس کی زبان کاٹ دو "

تاریخ لرز گئی ، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا. کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا ۔

بعض صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللی علیہ وآلہ وسلم، میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟

حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ، تم نہیں

تب رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو ، حضرت علی علیہ السلام بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور حضرت قنبر سے کہ کہ میرا اونٹ لے کر آئیے اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا ، پھر فرمایا تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ ، حضرت علی علیہ السلام نے تو رسول صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کیی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ نے فرمایا تھا زبان کاٹ دو ، علی علیہ السلام نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا علی علیہ السلام میری بات سمجھ گئے افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی ۔ وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو علی علیہ السلام نے تو کاٹی ہی نہیں اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتا ہے وہ شاعر وضو کررہا ہے پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں چومنے لگتا ہے ۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں اور یوں ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام نے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا "

‘ زندگی لفظوں کی شطرنج ہے ‘ ابنِ صفی نے زندگی کی عملی تفسیر پانچ لفظوں میں بیان کردی تھی سارا کھیل ہی لفظوں کا ہے پہلی بازی سے آخری چال تک نیکی بدی ،  دِن رات ، روشنی تاریکی کی طرح لفظوں کے سفید و سیاہ مُہرے اپنی مثبت اور منفی چالوں کے ساتھ ہمارے اندر اور ہمارے باہر ہمیں مضبوط یا کم زور بنارہے ہیں ۔ شاطر کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ کب کون سی چال چلنی ہے اور اناڑی سوچتے رہ جاتے ہیں ۔ ’’ہاں‘‘  یا  ’’نہیں‘‘  میں اُلجھے رہتے ہیں اور بازی ہار جاتے ہیں لفظوں کی طاقت مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی ۔ دنیا کا سب سے طاقت ور منفی لفظ ’’No‘‘  ’’نہیں‘‘ ہے۔ اور سب سے طاقتور مثبت لفظ ’’Yes‘‘  ’’ہاں‘‘ ہے ۔ ہمارے اطراف کا ماحول اگر اچھا ہوتا ہے اور ہم شروع سے اچھی باتیں سنتے اور اچھے رویّے دیکھتے آتے ہیں تو شعور سنبھالنے کے ساتھ ہم لاشعوری طور پر زندگی کے اچھے راستوں پر چلنا شروع کردیتے ہیں، لیکن اگر ہم نے بچپن سے ہی بُری زبان اور گالی گلوچ سنا ہو اور اپنے بڑوں کو ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا ہو اور ہمارے چاروں طرف ہر چھوٹا بڑا اپنی اپنی زبان کے تیروں بھالوں اور تلواروں سے ہر کسی کو مجروح کرتا ہوا ملا ہو تو بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے بار بار کے سُنے ہوئے منفی الفاظ اور برتے ہوئے کسیلے رویّے ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہوجاتے ہیں اور ہم اپنے آپ اور اپنے ماحول کو بدلنے کے بجائے، سنوارنے کی بجائے معاشرے کے اُسی اُلٹے گھومنے والے منفی نظام / پہیے کا حصّہ بن جاتے ہیں سوچے سمجھے بِنا جو بات کی جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات ایسے لفظ، ایسے جُملے شامل ہوجاتے ہینَ جو سامع کا دل دُکھا دیتے ہیں یا اسے پسند نہیں آتے۔ اسی لیے دنیا کے ہر مذہب، ہر تہذیب، ہر قوم، ہر نسل کے دانا اور بزرگ یہی کہتے آئے ہیں کہ ’’ پہلے تولو، پھر بولو ‘‘ اور یہ کہ ’’ جوں جوں دانائی بڑھتی ہے، گفتگو کم ہوتی جاتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’جو زیادہ بولتا ہے وہ اپنے راز کھولتا ہے ۔ اور جو اپنے راز کھولتا ہے وہ اپنے ارادوں میں ناکام ہوتا ہے ‘‘ اور یہ کہ ’’ تلوار کا گھاؤ بھر سکتا ہے ، زبان کا گھاؤ نہیں بھرسکتا ‘‘ اور اسی نوعیت کی ہزاروں حکمت و فراست سے بھرپور باتیں ۔

بولے گئے اور لکھے گئے لفظ دُنیا کے ہر خطّے کے ہر انسان کو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کرتے ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہمارا، ایک دوسرے سے رابطہ، بات چیت، گفتگو یا تحریروں سے رہتا ہے۔ ڈھائی تین سال کی عمر سے بچّے کو بولنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے، حرف سے لفظ اور الفاظ سے جملوں تک۔ پیار، محبت ، توجہ اور خیال سے بچّے کو ایک ایک لفظ سکھا کر بولنا سکھایا جاتا ہے۔ بچّے کا دماغ، سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ جس زبان میں جو الفاظ سنتا ہے، وہ اُس کے دماغ میں محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ چرچل کی بات یاد آئی کہ نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا ۔ شیریں کلامی سے دُنیا مُسخّر ہوجاتی ہے اور بد زبانی سے سب بیزار ہوجاتے ہیں ۔

اس کیساتھ مجھے دو بہت ہی دلچسپ اقوال یاد آ رہے ہیں ،

1۔ ہمارسوچ ہمارے الفاظ بن جاتے ہین ، ہمارے الفاظ ہماری بات ، ہماری بات ہمارا عمل اور ہمارا عمل ہمارا کردار بن کر سامنے آتا ہے ۔

2۔ کوئی بات کہنی ہو تو اسے سب سے پہلے ان تین دروازوں سے گزاری ۔۔ کیا یہ بات درست ہے ؟ کیا اس بات کے کرنے کی ضرورت ہے ؟ کیا یہ بات اس بات سے کوئی مثبت رد عمل ہوگا ؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان میں ایک دور میں جب ٹیلیفون کمپینوں کے اشتہارات کی بھرمار تھی تو ہر روز ایک دوسرے کے مقابلے میں کم سے کم ریٹ کے اعلان ہوتے تھے جس سے تنگ آ کر اس معاملے کو ختم کرنے کیلئیے ایک کمپنی نے کیا ہی زبردست اعلان / اشتہار بنایا

 ‘ اس سے سستی ۔۔  صرف خاموشی ‘

آخر میں اتنا کہوں گا کہ منفی لفظ کانٹوں کی مانند ہوتے ہیں اور کسی کے راستے میں یوں کانٹے نا بچھاہین کہ کہیں اچانک وقت بدلے اور آپ کو اسی راستے پر چل کر اس شخص کے پاس جانا پڑے اور آپ جا نہ سکیں ۔

ناطق ؔ لکھنوی نے کیا خوب کہا تھا

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

عزت و نعمتِ حقیقی کیا ہیں ؟

ہفتہ دسمبر 5 , 2020
منافقین کی موجودہ زمانے میں پہچان یہ ہے کہ عزت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے مگر یہ لوگ بادشاہوں کے درباروں میں یہود و نصارٰی کے ایوانوں میں تلاش کرتے ہیں بھلا کیونکر مل پائے گی ،؟ علم و حکمت خالی پیٹ اور بھوک میں ملتی ہے یہ لوگ شکم سیری میں تلاش کرتے ہیں ، کیسے مل سکتی ہے.؟ ت

مزید دلچسپ تحریریں