Tale of Koh e Noor کوہ نور ہیرے
( کوہ نور ہیر ے کا نام اکثر لوگوں نے سن رکھا ہے لیکن اس کی تاریخ سے بہت کم لوگ آشناء ہونگے ۔ آج کا کالم کوہ نور اور اس کی دلچسپ تاریخ کے نام )
تحقیق و تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
ہیرے جواہرات و لعل و یاقوت وغیرہ کا دامن ہمیشہ دھن دولت ، عظمت ، بڑائی اور شاہی دنیاء سے وابستہ ملیگا ۔ عام آدمی ان کے نام سن سکتا ہے ، کہانیاں پڑھ سکتا ہے ، انہیں پانے کی خواہش رکھ سکتا ہے لیکن ان تک رسائی سہل نہیں ہوتی ۔ اس لئے کہ ان کی قیمت ادا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔ اسی طرح کے ایک گوہر نایاب کے بارے آج کے اس کالم میں گفتگو ہوگی جس کا نام ہے ،
کوہ نور ہیرا .
کوہ نور ، فارسی و عربی کے دو الفاظ سے بنا ، اسم مرکب ہے ۔ کوہ کے معنی پہاڑ اور نور کے معنی روشنی کے ہیں یعنی روشنی کا پہاڑ ۔ یہ نام اس ہیرے کو اس کی بے پناہ چمک دمک کی بناء پر اس وقت دیا گیا جب یہ متعدد شاہی خانوادوں کے محلات اور راہداریوں سے ہوتا ہوا ہندوستان سے ایران پہنچا ۔
اس سے قبل کہ اس کی تاریخ اور سفر پر نظر دوڑائی جائے ، یہ جان لینا ضروری ہے کہ ہیرا کہتے کس شے کو ہیں ، کہاں پایا جاتا ہے ، اس کی قدر و قیمت کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
سنسکرت زبان سے لئے گئے نام ، ہیرا (Heera ) ، کے معنی ہیں ، سب سے اعلی ، عمدہ اور نفیس شے ۔ آسان لفظوں میں بیان کروں توہیرا بنیادی طور پر قدرتی کوئلے ( Coal ) ہی کی برادری سے تعلق رکھتا ہے ۔ نظام کائنات کے تحت لاکھوں برس قبل زمین کے اوپری خول سے سینکڑوں کلو میٹر نیچے ، زمینی دباو اور انتہائی درجہ حرارت نے کاربن کے ایٹموں ( Atoms ) کو ٹھوس کرسٹل یا بلور کی شکل عطاء کی ، جس کے نتیجے میں کوئلے کے بعض ٹکڑوں نے خام ہیروں ( Diomonds ) کا روپ دھار لیا ۔ اگلے مرحلے میں جب زمین کے اندر چھپے آتش فشاں ( Volcano ) پھٹنے لگے تو کوئلے کے ساتھ ہیرے بھی زمین کی گہرائی سےاوپر آتے گئے . یہی وجہ ہے کہ ہیروں کو اکثر آتش فشاں پہاڑوں کے ملبے اورچٹانوں میں تلاش کیا جاتا ہے ۔ ہیروں کی دریافت کی تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے ہندوستان میں تقریبا 3000 سے 6000 سال قبل ہیرے ڈھونڈھ لئے گئے گئے تھے ۔
ہیرے کا وزن قیراط ( Caret ) سے کیا جاتا یے ۔ ایک قیراط 4 عدد جو کے دانے ( Barley seeds ) یا 200 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے ۔ قیراط ایک عربی پیمانہ ( Scale ) ہے جسے ہیرے کا وزن اور سونے کی اصلیت جانچنے اور ماپنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ خالص سونا 24 قیراط کا ہوتا ہے جبکہ بنے ہوئے زیورات ، 12 , 18 , 21 اور 22 قیراط تک کے ملتے ہیں ۔ وہ اس لئے کہ اصلی سونے میں سختی ( Hardness ) پیدا کرنے کی خاطر دیگر دھاتوں کی ملاوٹ کرنی پڑتی ہے ۔ ۔ یہ کہ ہیرے کے برعکس سونے کا وزن گرام اور اونس وغیرہ میں کیا جاتا ہے ۔
دنیاء بھر میں سالانہ 9 ارب ڈالر مالیت کے ، 13 کروڑ قیراط یا 26 ہزارکلو گرام ہیرے دریافت کئے جاتے ہیں ۔ اس دریافت کا نصف وسطی اور جنوبی افریقہ سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ روس ، بوٹسوانا ، کانگو ، آسٹریلیا اور کنیڈا میں بھی ہیرے کی کانیں ہیں ۔ انسانی معاشرہ ہیرے کی دریافت سے لیکر آج تک اسے مختلف طریقوں سے استعمال کرتا آرہا ہے ۔
ذاتی استعمال :
- عورتوں کے زیورات ، انگوٹھی ، تاج ، تخت ، تلوار ، خنجر ، گھڑی ، بادشاہوں کی قبروں اور دیگر اشیاء استعمال میں جڑاو ( Fix ) کرکے ۔
- صنعتی استعمال
جیسا کہ شیشہ ، گرینائٹ اور ماربل وغیرہ کاٹنے کے لئے اس کا ایک باریک ٹکڑا مخصوص قلم کی نوک پر لگا دیا جاتا ہے ۔
یہ اسقدر سخت جان ہوتا ہے کہ دوسری اشیاء کو تو کاٹ دیتا ہے مگر خود متاثر نہیں ہوتا لیکن اگر دو ہیرے آپس میں رگڑے جائیں تو خراشیں نمایاں ہوجائینگی اسی لئے انگریز کہتے ہیں
Diomond cuts Diomond.
ہیرا ہی ہیرے کو کاٹ سکتا ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جدید دنیاء میں جہاں دیگر اشیاء نقلی بن رہی ہیں وہیں نقلی ہیرے بھی عام ہو چکے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ کہ صنعتی استعمال ( Industrial Use ) کے لئے اصلی ہیرے بہت مہنگے پڑتے ہیں لھذا نقلی ہیروں سے کام چلا لیا جاتا ہے
اور یہ کہ عام آدمی بھی ہیرا پہننے کی خواہش بہ آسانی پوری کرسکتا ہے ۔
ہیرے کی قدر و قیمت کا انحصار 4 چیزوں پر ہے ،
- قیراط – یعنی وزن کتنا ہے .
- کٹائی – تراش خراش کیسی ہے ۔
- وہ کتنا صاف اور شفاف ہے ۔
- رنگ ( Colour ) کیسا ہے ۔
کان ( Mine ) میں سے برآمد ہونیوالا ہیرا اکثر و بیشتر شفاف یعنی بے رنگ ہوتا ہے لیکن کسی قدر قدرتی ملاوٹ کی وجہ سے ، نیلا ، پیلا ، بھورا ، سبز ، جامنی ، گلابی ، مالٹائی یا سرخ بھی ہوسکتا ہے ۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں صرف 19 قیراط کا ایک گلابی ہیرا 50 ملین ڈالر میں فروخت ہوا ۔
میرے خیال سے ہیرے کی قوم ، ذات ، رنگ ، شکل ، قد ، بت اور اوصاف کے بارے تفصیلی بیان آگیا اب چلتے ہیں روشنی کے پہاڑ یعنی کوہ نور کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ اس کی داستان حیات کیا ہے ۔
105 قیراط کا یہ ہیرا 13 ویں صدی عیسوی ، آج سے کم و بیش 900 سال قبل ہندوستان کی جنوبی ریاست گولکنڈہ ( حیدر آباد دکن ) کے ضلع گنٹور کی کان ، کلور سے برآمد ہوا۔ اس کے اصل مالک کاکاٹیا خاندان ( Kakatia Family ) تھا لیکن نسل در نسل نہ جانے کن کن راجاوں مہاراجاوں کی تجوریوں سے ہوتا ہوا دہلی کی لودھی سلطنت کے آخری فرمانرواء اور سکندر لودھی کے بیٹے ابراھیم لودھی تک پہنچا۔
ابراھیم لودھی انتہاء کا بدمزاج حکمران تھا ۔ اپنے پرائے سب سے بگاڑ ڈالی ۔ میواڑ ( راجستھان کا علاقہ اودھے پور ) کے راجہ رانا سانگا کو جب شکست دی تو اس نے کابل سے ظھیرالدین بابر کو مدد کے لئے پکارا چنانچہ 1526 عیسوی کو بابر لشکر لیکر پانی پت پہنچ گیا ۔ اگرچہ ابراھیم کی پاس بڑی فوج تھی لیکن بابر نے اپنے تجربے سے اسے شکست دی اور ابراھیم لودھی مارا گیا ۔ یہ پانی پت کی پہلی جنگ کہلاتی ہے ۔ اسی واقعے اور دن سے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد پڑی ۔ ظھیرالدین بابر تخت دہلی پر براجمان ہوا ۔ بابر کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اور مغلیہ سلطنت کا دوسرا بادشاہ نصیرالدین ہمایوں تخت نشین ہوا تو ابراھیم لودھی کی ماں نے اسے خوش کرنے کے لئے کوہ نور ہیرا بطور تحفہ پیش کیا ۔ اسطرح کوہ نور گھومتا گھامتا مغل خاندان تک جا پہنچا ۔
1739 میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کو کمزور پاکر اس پر حملہ کردیا ۔ محمد شاہ رنگیلا دلی کا حکمران تھا اسے کرنال کی جنگ میں شکست ہوئی اور نادر شاہ لال قلعے میں داخل ہوگیا ۔
قصہ مختصر نادر شاہ واپسی پر کروڑوں روپے مالیت کی دیگر اشیاء کے علاوہ ، گھوڑے ، اونٹ ،
تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا
( تخت طاؤس شاہ جہان کا بنایا ہوا ہیرے جواھرات سے مزین شاہی تخت تھا جو محمد شاہ رنگیلا کے عہد تک دیوان خاص میں مغل بادشاہوں کی نشست گاہ تھی )
عام مورخین کا خیال ہے کہ اس نادر و نایاب ہندوستانی ہیرے کو ” کوہ نور ” کا نام نادر شاہ نے ایران لے جاکر دیا ۔
احمد شاہ ابدالی ، نادر شاہ کا جرنیل تھا ۔ نادر شاہ کی وفات کے بعد افغانستان کا علاقہ اس کے قبضے میں آیا تو وہ کوہ نور ہیرا بھی ایران سے اپنے ساتھ افغانستان لے گیا ۔ اس کی موت کے بعد یہ قیمتی ہیرا اس کے بیٹے شاہ تیمور اور بعد از آں اس کے پوتے شاہ شجاع والیء قندھار کے قبضے میں رہا ۔ جب اس سے حکومت چھن گئی تو بھاگ کر ہندوستان ( لاہور ) آگیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے سیاسی پناہ ( Political Asylum ) طلب کی ۔ مہاراجہ نے پناہ کے ساتھ ساتھ اس کی کھوئی ہوئی حکومت کی بحالی میں مدد دینے کا وعدہ کیا ۔ اسی اثنا میں رنجیت سنگھ کو پتا چل گیا کہ ہندوستان سے لیجایا گیا قیمتی ہیرا کوہ نور ، اس وقت شاہ شجاع کے پاس ہے لہذا اس نے مہمان سے ہیرا طلب کرلیا ۔ شاہ شجاع نے بہانہ تراشا کہ ہیرا ، قرض کے بدلے بطور ضمانت ، کابل کے ایک زرگر ( Gold Smith ) کے پاس گروی رکھ کر آیا ہوں ۔ مہاراجہ سمجھ گیا کہ وہ بہانہ تراش رہا ہے ۔ اس لئے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اہل و عیال سمیت اندرون شہر مبارک حویلی میں نظر بند کرکے کھانا پینا بند کردیا ۔ گرمی کا مہینہ تھا ، شدید حبس اور بھوک پیاس سے بچے بلبلاء اٹھے ۔ اس ذلت آمیز صورت حال سے تنگ آکر پیغام بھیجا کہ ہیرا دینے کے لئے تیار ہوں لیکن میں خود مہاراجہ کو پیش کرونگا ۔ یہ سن کر رنجیت سنگھ خوش ہوا اور دربار سجا کر شاہ شجاع سے کوہ نور وصول کرلیا ۔
اس موقع پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے پوچھا ،
اس ہیرے کی قیمت کتنی ہوگی ؟
شاہ شجاع نے جواب دیا
” طاقت ” ،
مہاراجہ نے تجسس بھرے انداز میں وضاحت مانگی ،
طاقت سے کیا مراد ہے ؟
شاہ شجاع نے اس موقع پر جو الفاظ ادا کئے وہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہینگے ، کہا ،
میرے بڑوں نے اسے طاقت سے حاصل کیا
اب تم طاقت کے زور پر مجھ سے لے رہے ہو
اور
کل کوئی اور طاقتور تم سے چھین لیگا ۔
یہی اس کی اصل قیمت ہے ۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ 1839 میں ، گوجرانوالہ شہر میں جنم لینے والے اس شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا ۔ مہاراجے کے اس دنیاء سے چلے جانے کے بعد سکھ حکومت کمزور پڑگئی ۔ سکھوں کے باہمی اختلافات نے اس کی چولیں ھلا دیں اور بالآخر انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے بعد شہزادہ دلیپ سنگھ نے کوہ نور انگریزوں کے حوالے کرکے شاہ شجاع کا قول سچا ثابت کردیا کہ اس ہیرے کی اصل قیمت
” طاقت ” ( Power ) ہے ۔
پہلے پہل یہ ہیرا اس وقت کے انگریز گورنر پنجاب جون لارنس کے پاس رہا ۔ یاد رہے یہ وہی گورنر ہے جس کے نام پر لاہور کا لارنس روڈ ، چڑیا گھر لارنس گارڈن ( اب جناح گارڈن)
اور ہمارے شہر اٹک کے قریب جی ٹی روڈ پر واقع لارنس پور کا ریلوے اسٹیشن اور ٹاون ہے ۔ کسی زمانے میں لارنس پور کا اونی کپڑا عالمی شہرت رکھتا تھا مگر اب یہ کارخانہ اجڑ چکا ہے ۔
معاف کیجئے ، تاریخ کا طالب علم ہوں بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے ۔ عرض یہ کررہا تھا کہ سکھوں سے یہ ہیرا گورنر پنجاب نے بزور بازو چھینا اور پھر حکم ملنے پر اسے خفیہ طور پر لندن بھجوادیا گیا جہاں یہ دوبارہ تراش خراش کے بعد تاج برطانیہ ( British Crown ) کی زینت بنا ۔ وہ تاج جسے حال ہی میں وفات پانے والی ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم نے پورے 70 برس تک کوہ نور کی چمک دمک کے ساتھ اپنے سر پر سجائے رکھا ۔
کسے معلوم تھا کہ ، گولکنڈہ ، حیدرآباد دکن کی کان سے برآمد ہونیوالا یہ انمول ہیرا ، جس کی
قیمت ” طاقت ” قرار پائی ،
کاکاٹیا خاندان کی تجوری سے ایک داستان بن کر ، لودھی ، مغل ، ایرانی ، افغانی اور پنجابی درباروں کے چکر لگاتا ہوا بالآخر لندن کے شاہی محل ،بکنگھم پیلس جا پہنچے گا
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست اعلی، اٹک e میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔