ہماری آبادی میں ایک تحصیلدار صاحب تھے ، سردار سلطان محمود خان بسمل مرحوم ، انہوں نے اپنے بچوں کے اسکول آنے جانے کے لئے ، ایک خوبصورت گھوڑی تانگہ رکھا ہوا تھا
کیمبل پور سے اٹک تک
دیہات انتظامی اور تجارتی طور پر کیمبل پور شہر پہ ہی انحصار کرتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر آبادیوں کو پکی سڑک کی سہولت نصیب نہ تھی
کامل پور سیدان کی تنگ مگر صاف ستھری گلیوں میں روشنی کے لئے پرانی طرز کے چراغدان ( Lamp Posts)نصب تھے ۔ یہاں شھر کی قدیمی امام بارگاہ واقع ہے
چند ٹکوں کی خاطر اس علاقے کے ھزاروں درخت کاٹ دئے گئے تاکہ پلاٹ بیچ کر دولت جمع کی جاسکے
تیسری قسط میں ہم سول ھسپتال تک پہنچے تھے ، جسےشھر کے وسط سے بہت دور ، ویرانے میں تعمیر کیا گیا
وہ کیمبل پور کیسا ہوگا ، جس کی شان میں میرے مانموں ، پنجابی زبان کے نامور شاعر اور فرزند کیمبل پور ، مرحوم حکیم تائب رضوی نے اتنی پیاری نظم لکھی
ذکر ہورہا تھا تولہ رام بلڈنگ کا ، جو اس شھر کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ جب بھی کیمبل پور جاتا ہوں ، آتے جاتے ، فن تعمیر کا یہ شاھکار مجھے
اس شھر کے نقشہ نویس Architect کا علم نہیں ، لیکن ، میں اسے داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ جیومیٹری کی مدد سے سیدھی اور کشادہ گلیاں ، چھوٹے چھوٹے وارڈز ( محلے)، ہروارڈ کے بیچوں بیچ ایک کشادہ چوک اور اس کے عین وسط میں پانی کا کنواں ، یہی چوک اس زمانے میں مختلف سماجی تقریبات کے لئے استعمال ہوتے تھے ۔