بعض حضرات کی رائے یہ تھی کہ یہ توت چونکہ کامل پور سیداں کے شاہ صاحبان کی ملکیت تھے اس لئے شاہ توت کہلاتے تھے۔
کامل پور سیدان
مورخ کی پہلی ذمہ داری اس کے ذاتی عقائد و ہمدردیوں کے خلاف ایک چوکیدار کی سی ہوتی ہے ، تاکہ وہ لکھا جائے جو ہوا تھا نہ کہ جو ہونا چاہئے تھا۔
جنابِ مونس رضا کی کتاب دائمی سچائیوں سے بھری پڑی ہے، اس سچائی کے سارے باب بہت روشن تھے، لیکن (ہجرتوں کی داستاں) میں آ کر اس کے کئی نئے پرت کھلے
دیہات انتظامی اور تجارتی طور پر کیمبل پور شہر پہ ہی انحصار کرتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر آبادیوں کو پکی سڑک کی سہولت نصیب نہ تھی
کامل پور سیدان کی تنگ مگر صاف ستھری گلیوں میں روشنی کے لئے پرانی طرز کے چراغدان ( Lamp Posts)نصب تھے ۔ یہاں شھر کی قدیمی امام بارگاہ واقع ہے
اگلے دن 19 جنوری بروز منگل صبح ملتان کے لیے روانہ ہوئے ایک مرتبہ پھر اوچ شریف انٹرچینج تک ہیڈ پنجند کو کراس کرنا اور پھر اسی اذیت سے گزرنا پڑا،
میرے میزبان؛ میرے محسن؛ میرے مہربان دوست جنابِ علامہ مومن حسین قُمی صاحب تھے جب کہ ہماری یہ محبت بھری دوستی قُم ایران سے 1985 سے آج تک قائم و دائم ہے