گلہریوں کا سارا خاندان خوشحال تھا وہ جنگل میں اکھٹی رہ رہی تھیں مل کر پھل کھاتیں درختوں پر اُچھل کُود کرتیں اُن کی آواز سارے جنگل میں
مسجد
آج سے چودہ سو سال قبل کائنات جب کفر و شر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مستور تھی زندگی کے آئینہ خانے میں کہیں وحدت کے رنگ نظر نہیں آتے تھے۔
گاؤں کی گلیاں82 ۔1981 میں یونیسف ادارے کے تعاون سے بنی تھیں جو کہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ووٹ لینے والے وعدہ کرتے رہے ہیں
یہ گاؤں آج سے تقریبا پانچ سو سال پہلے ہندووں نے آباد کیا تھا جو تقسیم کے بعد انڈیا چلے گئے اور زمینیں اپنے مزارعین کے حوالے کر گئے ۔
آئیے ، ہم سب مل کر اے پی ایس کے ان ننھے شہیدوں کو یاد کریں جنہوں نے اپنے خون سے اس وطن کو سرخ رو کیا ۔
میں ، عالم ہوں نہ مولوی اور نہ ہی سیاست دان ۔ مجھے کسی فقہی یا شرعی مسئلے پر بات کرنی ہے اور نہ وعظ و نصیحت بلکہ ایک عام پاکستانی شھری کی حیثیت سے جو دیکھ رہا ہوں ، محسوس کررہا ہوں ،
دھیان کی منزل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف ہماری آنکھیں کھلی رہیں تاکہ مشاھدے کی مدد اور رسد سے ہمارا شعور توانا ہو بلکہ ذھن پر کوئی پٹی بھی نہ بندھی ہو ، کوئی ایسا خول نہ چڑھا ہو کہ جو تاذہ ہوا کے جھونکوں کو اندر آنے سے روکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، کچھ پانے ، حاصل کرنے ، سوچنے اور سمجھنے کی جستجوء بھی موجود ہونی چاھئیے ۔
بہت کم لوگ دنیاء میں ایسے ہوئے کہ جنہوں نے اس موضوع پہ غور کیا ، اس کی حقیقت کو جانا اور پھر اس کے چھپے راز اور رموز اوروں تک پہنچائے