بہرائچ ہی وہ سرزمین ہے جس کوحضرت سیدسالار مسعود غازی رحمہ اللہ(خواہر زادے سلطان محمود غزنوی)نے اپنے قیمتی خون کے قطروں سے سیراب کیا
غالب
جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو اپنے اردو کے استاد محمد احمد نقوی صاحب سے ایک شعر سنا
طاعت میں تارہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
اقبال اشہر کی نظم “اردو ہے میرا نام” اردو کے حق میں ایک شاہکار اور کثیر جہتی نظم ہے جو اردو کے ارتقاء، اثرات اور ثقافتی اہمیت کو
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہون
پیسا، شہرت، اور دیگر وقتی مفادات حاصل کرنے کے لیے مشاہیر کے نام سے جعلی خطوط لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیے گئے لیکن ناقدین کی نظروں سے
بہرائچ کو شاعر عظیم مرزااسد اللہ خاں غالبؔ کے شاگرد بے صبرؔ کاٹھوی کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
اردو کا جنم شہنشاہ شاہ جہان کے زمانے میں دلی میں ہوا اور بقول محمود خان شیرانی ، اردو دلی میں جنمی ، اترپردیش میں بیاہی گئی اور اب بڑھاپا پنجاب میں کاٹ رہی ہے ۔