یہ دو فریقین کے درمیان دو بدو خوفناک جنگ ہے جس کو آئین، جمہوریت یا ‘سول بالادستی’ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔
عمران خان
ہم اس ساری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، 13 جماعتوں پر مبنی متحدہ حکومت کو یا تحریک انصاف اور تن تنہا عمران خان کو؟
جمہوریت کی تعریف کے مطابق یہ طرز حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بلکل الٹ ہے۔ بقول اقبال بندوں کو گننا اور تولنا
حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو جھکنے پر مجبور کر دے۔ بصورت دیگر، خدا نہ کرے، ملک کسی بھی ناخوشگوار سانحہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
واضح طور پر اگلی وزارت عظمی کی جنگ عمران خان اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔
عمران خان کی باتوں پر جس شخص کو پہلے کوئی شک و شبہ تھا اب اسے یقین ہوجائیگا کہ یہ لوگ فاشسٹ اور جمہوریت کش ہیں ۔ جمہوریت میں آزادی اظھار رائے پہلی شرط ہے
شیطانی سیاست سیاست کی اس قسم میں سیاست دان یا حاکم ، ریاست اور رعایا کو نہیں بلکہ خود کو مضبوط و مستحکم اور خوشحال بنانے کی تدبیر کرتا ہے ۔
جھوٹ کی پہلی کتاب نرسری سے شروع ہو اور اس مضمون میں آگے چل کر ایک بچہ گریجویشن ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کرسکے ۔ جھوٹ کی افادیت پر سیمینار اور مباحثے منعقد ہوں ۔
میرے خدشات ہوائی اور بے بنیاد اس لئے نہیں کہ میری نسل نے سن 70 کی دھائی میں اقتدار ہی کی جنگ کے نتیجے میں سانحہ مشرقی پاکستان رونماء ہوتے دیکھا ۔
عمران خان کی سوچ فیوڈل نہیں بلکہ عام آدمی کی سوچ ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے کرکے دکھائیگا