تا دم تحریر اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ اس الیکشن کے حیران کن نتائج مقتدرہ اور نون لیگ کی امیدوں پر پانی پھیرنے کا کام کر سکتے ہیں۔
عمران خان
انتخابات سے پہلے ہی یہ وسوسے زور پکڑ رہے ہیں کہ ایک تو اس الیکشن پر خون خرابے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے
حکمرانوں کے بچے پیدا ہوتے ہی ارب پتی کیسے بن جاتے ہیں اور ان کے بچوں پر ہر سال آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھ جاتا ہے؟
آخری مغلیہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو اردو شاعری کا بہت شوق تھا۔ ان سے پہلے کے بادشاہ بھی شاعری کے رسیا تھے
جمہوریت عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں دے سکتی یا معاشی استحکام نہیں لا سکتی تو اس کا بار بار تجربہ کرنا فقط وقت اور قومی دولت کا ضیاع
یہ آزمودہ نسخہ ہے کہ منزل نہ مل رہی ہو تو اسے حاصل کرنے کے لیئے طریقہ کار بدلنے یا راستہ بدلنے سے مل جاتی ہے۔
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سٹاک مارکیٹ مسلسل اوپر جا رہی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک انڈیکس 66 ہزار پوائنٹس سے بڑھ گیا
جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے تو کسی حد تک سوچا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو اس اعتبار سے ایک “پلانٹڈ” انٹرویو تھا
میاں نواز شریف کی آمد محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ ہماری عوام کی نفسیات میں، “سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی”،
عمران خان نے عوام میں جتنا سیاسی شعور بیدار کر دیا ہے اب عوام کو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔