ہمارا تصور یا تخیل جو چیزیں ہمیں دکھاتا ہے وہ کائنات میں کہیں نہ کہیں وجود رکھتی ہیں. یہ امکان بھی موجود ہے کہ کائنات
سائنس
مصرعہ “سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر” کے خالق علامہ محمد اقبال سائنس دان نہیں تھے۔ اس کے باوجود علامہ اقبال کی شاعری میں
سائنس اور مذہب کے درمیان پائی جانے والی اس غلط فہمی کی وجہ سے سائنس کے کچھ طلباء اپنی کم علمی کی وجہ سے خدا کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں
اہرام مصر دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں۔ انہیں دیکھ اور سوچ کر انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لیئے
مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس Artificial Intelligenceکی مسلسل ترقی انتہائی خطرناک ہے۔
ہر وہ عالم صوفی کہلانے کا مستحق ہے جس کا علم دوسرے عام انسانوں کے لیئے نفع بخش اور باعث برکت ثابت ہو۔ یورپ کی سائنسی لیبارٹریوں
فطری اصولوں کے مطابق دنیا میں صرف وہی اقوام ترقی اور نشوونما کر سکتی ہیں جو فطرت کے اصولوں کی پابندی کرتی ہیں۔
سائنس کے دلچسپ مضمون ہونے کا ایک سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ایک پراسرار مضمون ہے کہ جو فطرت کے رازوں اور ان کے طریقہ ہائے کار
انسان واحد ایسی دریافتہ مخلوق ہے جو اپنے تخیل و شعور، مشاہدے اور جدید علوم کی طاقت سے ممکنہ طور پر پوری کائنات پر اپنا تصرف
اگر ہم قرآن کو کسی بھی عہد کے نئے زہنی یا سائنسی علم کے اعتبار سے سمجھیں گے تو جہاں اسرار قرآن اور انکی اصل پوٹینشل نمایاں ہو گی