علی شاہد ؔ دلکش ایک متحرک اور فعال شاعر و ادیب ہیں۔ عالمی ادبی سطح پر درونِ ہندوستان اور بیرون ملک دیگر ممالک کے ادبی پلیٹ فارم پر
کشمیر
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم “فلیکسیبل مائنڈ سیٹ” کی بجائے “فکسڈ مائنڈ سیٹ” کا شکار چلے آ رہے ہیں
میرے لیے یہ بات باعث صد افتخار ہے کہ میں صوبہ سندھ کے آخری ضلع تھرپارکر کے صحرا میں بیٹھ کر وادئ کشمیر کے محقق
کھڑک میں پہلی بار ایک نوجوان کو کشمیری فرن پہنے دیکھا۔ یہ ڈھیلا ڈھالا کرتا اس کو عام لباس کے اوپر پہنتے ہیں
اپنے عہد کے باشعور شخص کو پہچاننا، اس کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اس کی تعظیم کرنا تہذیب یافتہ معاشروں اور صاحبِ بصیرت اشخاص کا خاصا ہے۔
ایک گھنے پھل دار درخت سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق اپنی اپنی ضرورت اور حثییت کے مطابق کوئی نہ کوئی فائدہ اُٹھاتی ہے ۔
سینئر مدرس سید نسیم حسین شاہ 39 سالہ ملازمت کے بعد بہ عزت ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو گئے۔
اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا. کتاب نے مجھے اپنی طرف بے ساختگی سے اردو ادب کی چاشنی کے زریعے راغب کیا
مجھے لگتا ہے کہ مجلہ ”بساط“ Bisaat کے ساتھ وادیئ نیلم کے فرہاد کا نام ایسے جُڑ جائے گا جس طرح لوک داستان شیریں فرہاد میں
معلم، شاعر، ادیب اور نقاد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم 4 اگست 1899 کو امرتسر میں پیدا ہوئے جہاں ان کے بزرگ کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے