31دسمبر …تاریخ کے آئینے میں
خان پور
حیدرقریشی ہمہ جہت ادیب ہیں جنہوں نے شاعری اورنثرکی تمام اصفاف میں اپنے فن کولوہامنوایا۔ بہترین ادبی جریدہ’’جدیدادب ‘‘پہلے خان پوراورپھرجرمنی سے نکالتے رہے
میرے نزدیک یہ ادبی تخلیقات پر مشتمل مجلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ تحریروں کا معیار اور حُسنِ ترتیب لاجواب اور بے مثال ہے
حفیظ شاہدؔ کی غزل ’’زندگی آمیز بھی ہے اور زندگی آموز بھی۔‘‘ انہوں نے زندگی کو اس کی تلخیوں اور رعنائیوں کے ساتھ بیان کیا ہے
خان پور کو کٹورہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی دو روایات ہیں ایک یہ کہ ماضی میں یہاں کے بنائے ہوئے کٹورے پورے برصغیر میں مشہور تھے۔
ان کی زیرِ نظر کتاب میں خانپور کی ادبی تاریخ میں شامل سینکڑوں ناموں تک رسائی ملتی ہے۔ ان کی کتابوں اور ادبی کارناموں سے آگاہ ہونے کاموقع ملتا ہے۔
حیدرقریشی ہمہ جہت ادیب اور شاعرہیں ۔وہ بیک وقت ماہیا ، تحقیق و تنقید ، خاکہ ، افسانہ ، انشائیہ اور سفر نامہ نگار ہیں ۔
ثمینہ راجہ نے بیک وقت بطور شاعرہ، مصنفہ، ایڈیٹر، مترجم، ماہر تعلیم اور براڈکاسٹرخود کو منوایا۔ نیشنل لینگویج اتھارٹی میں بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھی کام کرتی ر ہیں
اپنے ہم عصر احباب کے احوال جمع کرنا ہی کم مشکل نہیں چہ جائیکہ اُن لوگوں کے حالات و واقعات کو جمع کرنا جواب دینا میں نہیں رہے
محمد یوسف وحید جو جہد ِ مسلسل بلکہ اَن تھک محنت ، پُر کار شخصیت اور مثبت طرزِ فکر کے بل بوتے پر ’’ آگیا اور چھا گیا ‘‘ والے بیانیے کو سچ ثابت کر چکے ہیں