جنید احمد نور کا قلم تاریخی شہر کے ساتھ تاریخی شخصیت سازی کا کام کر رہا ہے جنہوں نے صدیوں کی داستان کو لمحوں میں پیش کرکے سمندر کو کوزے میں بھر دیا ہے
بہرائچ
بابا جمالؔ علوم ادبیہ پرماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔عروض وبیان سے مل کر شعر کہتے تھے۔آپکے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔آپ کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔
کیفی صاحب کا ہمارے تاریخی شہر بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔آپ کے بچپن کے دن بھی بہرائچ میں گزرے ہیں۔
اظہار ؔ صاحب کی پیدائش صوبہ اتر پردیش کے علاقہ اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ میں ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۰ء کو حکیم محمد اظہرؔ وارثی کے یہاں ہوئی۔
عبد الرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد تھے۔ وصفی ؔصا حب کی پیدائش ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۴ءکو شہر کے محلہ میراخیل پورہ بہرائچ میں ہوئی تھی۔
1857ءکی پہلی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان ہند پر جو ظلم وستم توڑے گئے وہ ہم سوچ ہی نہیں سکتے جو لوگ ملک کے حاکم تھے ان کو سب سے زیادہ انگریزوں کے جور و ستم کو
دنیا میں اس طرح سے کچھ الجھے ہوئے ہیں سب
عقبی ٰ کو اک فسانہ ہی سمجھے ہوئے ہیں سب
مغل بادشاہ اکبر کے دور میں انتظامی ڈیویڑن میں بہرائچ سرکار کے طور پر جانا جاتا تھا جس میں موجودہ ضلع کے علاوہ گونڈہ اور کھیری ضلعوں کے کچھ حصہ بھی شامل تھے
وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہرصنف کو کامیابی سے برتا ہے
انجم ؔصدیقی کے یہاں تصوف اور تغزل کا ایک ایسا حسین امتزاج ملتا ہے جس کی مثال اردو کے شعراء میں بہت کم ملتی ہے