سید مبارک حسین شاہ ہمدانی

سید مبارک حسین شاہ ہمدانی

تلہ گنگ کے معروف گاؤں ڈھلی کے ممتاز شاعر اور بیروکریٹ سید مبارک حسین شاہ ہمدانی کا سلسلہ نسب پیر سید ولایت حسین شاہ ہمدانی بن سید محمد شاہ ہمدانی بن سید مبارک شاہ ہمدانی بن سید شاہ سیال ہمدانی بن سید شاہ فتح نور ہمدانی المعروف تیغ بہادر ( مزار مبارک تلہ گنگ) بن سید شاہ لطیف ہمدانی ( مزار مبارک میال) بن سید محمود ہمدانی بن سید شاہ عبداللہ ہمدانی کے توسط سے ان کے جدامجد سلطان الاولیاء حضرت سید احمد ہمدانی المعروف حضرت شاہ بلاول ہمدانی( مزار مبارک دندہ شاہ بلاول لاوہ) سے جا ملتا ہے۔ سید مبارک شاہ ہمدانی یکم جنوری 1961ء کو پیر سید ولایت حسین شاہ ہمدانی کے ہاں ڈھلی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ڈھلی میں حاصل کی میٹرک کا امتحان 1976ء میں ایف جی ٹیکنیکل سکول راولپنڈی سے پاس کیا ۔ ایف اے کا امتحان 1978ء میں ، بی اے کا امتحان 1980ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے پاس کیا ۔ ایم اے سیاسیات کی ڈگری 1983ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی سید مبارک شاہ نے 1984ء میں ملازمت کا آغاز بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر واپڈا سے کیا 1985ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1986ء میں سی ایس ایس کی بنیاد پر سول سروسز آف پاکستان میں شامل ہوئے، پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں گریڈ 17 سے 20 تک مختلف مناصب پر لاہور ، اسلام آبا، راولپنڈی ، تربیلہ، کندیاں اور گدوال وغیرہ میں خدمات سر انجام دیں سید مبارک شاہ نے سعودی عرب برطانیہ تھائی لینڈ اور فلپائن کے سفر بھی کئے۔ سید مبارک شاہ ہمدانی کا پہلا شعری مجموعہ "جنگل گمان کے ” کی اشاعت اول 1993ء دوم 2010 ء اور سوم 2014 ء میں ہوئی ۔ مبارک شاہ "جنگل گمان کے” کے تعارف میں رقم طراز ہیں

سید مبارک حسین شاہ ہمدانی

( اقتباس) اپنی شاعری کی اشاعت کے لئے شکیب جلالی اور اقبال ساجد کی طرح اپنی موت کا انتظار نہ کر سکا اور دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح احتیاطاً یہ کام اپنی زندگی میں ہی کر رہا ہوں اس سلسلے میں کسی انفرادیت کا مظاہرہ نہ کر سکنے کا مجھے احساس بھی ہے اور افسوس بھی البتہ ایک لحاظ سے عام روش سے ضرور ہٹا ہوں اور وہ یہ کہ اپنی ادبی قامت اور کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لئے اس کتاب میں کسی شاعر ادیب یا نقاد کا تبصرہ شامل نہیں کیا اس کی دو وجوہات ہیں اول تو یہ کہ جو کتاب لفظ لفظ میری ہے میں اس کا اغاز مانگے ہوئے لفظوں سے کیوں کرتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کے معتبر لوگوں نے عصر حاضر کی اکثر کتابوں پر جو تبصرے لکھے ہیں وہ مجھے معتبر نہیں لگتے میں کسی طرح کسی طرف اشارہ نہیں کرتا لیکن اکثر نئے شاعروں کی کتابوں میں موجود تبصروں میں ان کی شاعری کے بارے میں جو تاثر ملتا ہے وہ کتاب پڑھنے کے بعد زائل نظر آتا ہے ۔ قارئین اس کتاب میں حمد باری تعالیٰ ، نعت رسول اکرم (ص) کے علاوہ غزلیں ، نظمیں اور بازگشت شامل ہیں نمونہ کلام ، اے محبت کے پیمبر تو وفاؤں کا امیں، باعث تخلیق عالم درد مند عالمیں ، اور تیری امت دہین پیشہ کزبب و ریا ، جیسے طائف کے ستمگر جیسے کوفے کی مکیں ، تو نے بس اس شخص کو محروم جنت کہہ دیا ، جس کے ہمسائے کبھی فاقہ کشی میں سو گئے ، ایک ہمسایہ تو کیا اے رحمتہ للعالمیں ، ہم تو نسلوں کے لئے فاقوں کی فصلیں ہوگئے ، اے ردائے خاکساراں ! جو ہمارا بس چلے ، بے اماں لوگوں کے سر سے آسماں کو کھینچ لیں ، تو نے فرمایا تھا ” حق گوئی میرا دستور ہے” اور ہم جو سچ کہے اس کی زباں کو کھینچ لیں ،

ہم ریا پیشہ جو سچی بات کہہ سکتے نہیں ،
لاکھ چاہیں بھی تو تیری نعت کہہ سکتے نہیں ۔
سید مبارک شاہ ہمدانی کی دوسری کتاب ” ہم اپنی ذات کے کافر” کی اشاعت اول 1995ء دوم 2010ء اور سوم 2014 ء میں ہوئی ، یہ کتاب غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے ، سید مبارک شاہ ہمدانی پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں

آج سے تقریبا دو برس پہلے جب میں ” جنگل گمان کے” ترتیب دے رہا تھا مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ میں اتنی جلدی دوسری کتاب کے بارے میں سوچوں گا دوسری کتاب تو دور کی بات ہے کوئی بھی اچھی غزل یا نظم کہنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے بعد شاید ہی کچھ لکھ سکوں پہلی کتاب کی اشاعت کے بعد بھی یہی خیال دامن گیر تھا لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس میں شاعری میں جس طرح مجھ پر بیتی ہے اس کا اندازہ کسی حد تک اس کتاب کے کارئین کو ہو جائے گا "جنگل گمان کے” کی اشعار میرا ایک دیرینہ خواب تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے موجودہ اشعار ایک فریضہ ہے کچھ دوستوں کی رائے میں مجھے کچھ تو انتظار کرنا چاہئے تھا ورنہ افراطِ ادب کا الزام جو میں دوسروں پر لگاتا رہا ہوں مجھ پر بھی عائد ہو سکتا ہے میں اپنے دوستوں کی رائے کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کتاب میں موجود شاعری نے شاعر سے بھی زیادہ عجلت سے کام لیا ہے یہ شاعری زندگی کے بارے میں میرے بہت سارے نا اسودہ سوالوں کے جواب کی صورت میں میرے پاس امانت ہے یہ میری تخلیق نہیں ہے دریافت ہے اور اس دریافت شدہ امانت کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے

مبارک شاہ صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں

اپنی شاعری کے ذریعے شہرت کمانے کا جنون اگر کبھی تھا تو اب نہیں ہے اگرچہ ذاتی خیال ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کام خصوصا تخلیقی کام شناخت لذت اور راحت میں سے کسی ایک لالچ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ افراط و انحطاط ادب کے اس زمانے میں جہاں شعر کہنے والے بہت اور سننے والے کم ہیں مجھے اپنی شاعری سے نہ تو اپنی شناخت کی توقع ہے اور نہ ہی کوئی لذت مقصود ہے راحت تو بہت دور کی بات ہے مجھے سوائے اضطراب کے اس اقلیم سخن سے کچھ نہیں ملا ہے مگر یہ اضطراب مجھے شناخت لذت اور راحت تینوں سے زیادہ عزیز ہے اور یہی میری شاعری کا جواز بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اندیشہ ہے کہ لذت و راحت ڈھونڈنے والے شاید اس کتاب کو اپنے لئے کارآمد نہ پائیں لیکن اس طرح وہشت شناس اس شاعری سے مایوس نہیں ہوں گے ۔

کلام ، دیکھے گا کوئی خاک یہ ملبہ وجود کا
، کس کو کھنڈر ملے گا مری باش و بود کا ،

الجھا ہوا خدا بھی ہے دام دوام میں ،
ہے سلسلہ حدود سے باہر قیود کا ،

اک عمر کی بسی ہوئی خوشبو نکل گئی ،
اعلان کر رہا ہے تعفن وجود کا ،

پیراہن بدن کی تنگی عبث نہیں ،
یہ مرحلہ ہے مری نمو کی نمود کا ،

تجدید کر رہی ہیں قدامت کی جدتیں ،
ہر انقلاب نو ہے مجدد جمود کا ،

روز حساب اجرت کار حیات ہے ،
یا قرض جاں پہ کوئی تقاضا ہے سود کا ۔

سید مبارک شاہ ہمدانی کی تیسری کتاب ” مدار نارسائی میں ” کی اشاعت اول 1998 ء اشاعت دوم 2010 ء اور اشاعت سوم 2014 ء میں ہوئی ۔
مبارک شاہ نے اس کتاب کا انتساب اپنی پیاری ماں کے نام کیا ۔
اس میں بھی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔
” مدار نارسائی میں” کے پیش لفظ میں شاہ صاحب رقم طراز ہیں

(اقتباس) اپنے محور میں مسلسل گھومتے ہوئے مرکز کا پیہم طواف کرنا ، دو مختلف راستوں پر مسلسل سفر کرنا اور دو الگ الگ گردشوں میں بیک وقت موجود رہنا مدار نارسائی میں قائم رہنے کی شرط ہے اور ضمانت بھی اس قانون کو توڑ کر خط وقت میں برقرار رہنا ناممکن ہے لیکن اس جبر میں رہتے ہوئے اس کے بارے میں سوچنا اور سوال اٹھانا تو ممکن ہے اور سوچا جا سکے تو احتجاج بھی کیا جا سکتا ہے آزمائشی شرط ہے اس نظام جبر میں احتجاج کا جواز بھی ہے اس کی گنجائش بھی ہے اور اس کی سزا اور صلہ بھی ہے ، سیارہ اپنے محور میں گھومتے ہوئے اپنے ستارے کا طواف کر رہا ہے اس جبری گردش کے تسلسل میں ایک لمحہ توقف کو ایک قدم انحراف کی گنجائش نہیں لیکن اس قید میں رہتے ہوئے سیارہ اپنے تئیں ذرا سی ایک جنبش ایک ہلکی سی جھرجھری تو لے سکتا ہے اور یہی ارتعاش سیارے کا وہ احتجاج ہے جس سے اس کے وجود میں بھونچال آجاتا ہے زلزلے احتجاج کی سزا ہیں زلزلوں سے رونما ہونے والا تغیر اس جسارت کا صلہ ہے ، فطرت کے اس جبر کے بارے میں ہر طبقہ وجود اپنے طور پر سوچنے اور سوال اٹھانے کا حق رکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر احتجاج کا اختیار بھی ہم بھی اس مدار نا رسائی میں انہیں گردشوں کے اسیر ہیں جو اپنی ذات کے محور میں رقص کرتے ہوئے کسی مرکز کا مسلسل طواف کئے جا رہے ہیں، مانا کہ اس مدار سے نکل کر اپنے وجود میں رہنا ہمارے بس میں نہیں مگر بے جان سیاروں کی طرح اس جبر میں رہ کر کیا اپنی خواہش اور اپنے Risk پر اس قدر جرات اور حرکت بھی ممکن نہیں جس سے ہمارے وجود میں زلزلے پیدا ہو جائیں ہمیں اپنی ذات میں ارتعاش پیدا کرنے کے لئے جس جنبش کی ضرورت ہے اس کا تعلق گنبد استخوان میں رکھے ہوئے اس سرمئی لوتھڑے سے ہے جو ازخود تو ساکت رہتا ہے مگر اس کے اندر قیامتیں دھڑک رہی ہیں یہ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں بلکہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے اپنی سوچ کے دھارے سے دنیا بدل ڈالی انہوں نے بھی اپنے ذہن کا کچھ حصہ ہی دریافت کیا ۔

نمونہ کلام۔
میں کہاں چلا گیا ہوں ،
میں ابھی یہیں کہیں تھا ،
کسی محفل سخن میں ،
کوئی گفتگو غزل پر ،
کہیں بزم دوستاں میں ،
کوئی نظم نامکمل ،
میں کہاں چلا گیا ہوں

سید مبارک شاہ ہمدانی کی کتاب” دستک زمین پر” کلیات سید مبارک شاہ میں شامل کی گئی ہے ۔ کلیات سید مبارک شاہ بک کارنر جہلم نے 2017 ء میں شائع کی ، ان کی غیر مطبوعہ کتب میں نثر سراب مستقیم ، (تحقیق قرآنیات) انا الحسین (حلاج سے روحانی ربط ) شامل ہیں ،
سید مبارک شاہ ہمدانی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے 27 جون 2015 ء کو وصال فرما گئے انہیں ڈھیری حسن آباد الف شاہ قبرستان ریاض قریشی روڈ راولپنڈی میں سپردِ خاک کر دیا گیا ۔
قارئین راقم الحروف کے آباؤاجداد کے ان کے خاندان سے دینی اور روحانی مراسم تھے سید مبارک شاہ کے بڑے بھائی سید مصطفٰی شاہ ہمدانی میرے پھپھو زاد ، ماموں زاد بھائیوں کے رضائی بھائی ہیں ۔ اس نسبت سے دونوں خاندان ایک دوسرے سے باہم پیار و محبت کا رشتہ استوار کئے ہوئے ہیں،
سید مبارک شاہ کے والد محترم پیر سید ولایت حسین شاہ ہمدانی نے ملازمت کا آغاز پاکستان نیوی سے کیا چند سال بعد ملازمت ترک کرکے پی ائی اے میں ملازمت اختیار کی اور اسی ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہوئے سعودی عرب میں قیام کے دوران جماعت اسلامی کے رکن تھے گاؤں میں ہمارے آباؤاجداد کی تعمیر کردہ مسجد میں میرے ماموں جان اے ڈی آئی ملک محمد نواز مرحوم اور پیر سید ولایت حسین شاہ ہمدانی مرحوم نماز جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے اہلیان علاقہ ان ہر دو شخصیات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور دل وجان سے ان کی عزت کیا کرتے تھے ۔


پیر سید ولایت حسین شاہ ہمدانی2001 ء میں وصال فرما گئے انہیں ڈھلی گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیر ولایت شاہ اور سید مبارک شاہ اور میرے ماموں جان کی قبر انور پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کی کامل مغفرت فرمائے آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اے آر وائی ARY والے حاجی عبدالرزاق مرحوم

بدھ جون 12 , 2024
نیک نامی کمائی میں اے آر وائی ٹی وی چینل اور اے آر وائی گروپ آف کمپنیز کے مالک حاجی عبدالرزاق مرحوم سرفہرست ہیں۔
اے آر وائی ARY والے حاجی عبدالرزاق مرحوم

مزید دلچسپ تحریریں