سید حبدار قائم کی حب داریاں
تحریر / ڈاکٹر عبدالرشید آزاد
زندگی کی بھرپور بہاریں یعنی جوانی کا دور عملی جدوجہد کی سعی وطن عزیز کی خدمت میں گذار دینے والوں میں سید حبدار قائم کا نام بھی آتا ہے یوں تو پاکستانی فوج میں ہمارے شعراء وادباء کی شرکت اور جذبہ خدمت وطن ہمیشہ مثالی رہا ہے اور ہمارے سینکڑوں لکھاری فوج سے وابستگی کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں اور ایسے لکھاریوں میں ہر صنف ادب سے منسلک لوگ شامل رہے ہیں ۔
سید حبدار قائم میرے فیس بک کے دوست ہیں اور بڑے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ہماری آج تک ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں ان کا کلام شائع ہوتا ہے اور راقم کو ان کا انٹرویو کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور ان کا یہ انٹرویو بلوچستان کے روزنامہ حرب بقا کوئٹہ ،ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں بھی شائع ہوا اور ان کا کلام کئی دیگر رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے ۔ان کا نعتیہ کلام ( مدح شاہ زمن) جو 2022 میں نعت آشنا پبلیکشنز ملتان نے شائع کیا تھا وہ راقم کو انہوں نے بطور تحفہ ارسال فرمایا یہ سید حبدار قائم کی حب داریاں ہیں جو انہوں نے اپنے آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اظہار محبت کے لئے کی ہیں ۔
اس میں ملک کے دو بہترین شعرا کرام ڈاکٹر ریاض مجید اور اشفاق احمد غوری کے گراں قدر خیالات بھی شامل ہیں اور شاہ صاحب قبلہ حبدار قائم کی (حرف تشکر) بھی ۔ کتاب کی ابتداء دو حمدیہ کلاموں سے کی گئی ہے اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے نوے( 90) نعتیں اور ایک سے بڑھ کر ایک میں سرکار مدینہ سے محبت کے لئے ہیرے جیسے لفظوں کے چناؤ میرے رب نے اپنے محبوب کے لئے اس کے عاشق سے کروایا ہے ۔
شاہ صاحب کی محبت ہے کہ آپ کے جد امجد کے لئے دل کی اک اک دھڑکن کے ساتھ جان کا ردھم بندھا ہے اور اس کا اظہار یوں دل سے نکلتا ہے کہ
فنا نہیں ہے قسم سے خدا کے بعد جسے
شفا ہے اور ضیائے بقا ہے آپ کا نام
کیا ہے جب سے تصور میں روبرو خضریٰ
تو تن بدن کو ضیا دے گیا ہے آپ کا نام
وہ اٹک میں بیٹھ کر عشقِ رسولﷺ کا جام پیتے ہیں اور صدا اٹھتی ہے دل سے
لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں
مرے حضور ہیں جلوہ نما مدینے میں
پرندہ بن کے تصور میں پر لگا کے اڑا
وہاں پہ خضرٰی کو چوما ،اڑا مدینے میں
آپ خود رقم طراز ہیں کہ میں بہت اطمینان کے ساتھ درِ رسول ﷺ پر دستک دیتا رہا اور نگاہیں جھکا کر کھڑا رہا اور مجھے درِ اقدس سے صوتی ترنگ خیرات میں ملتی ۔
راضی مدحت سے کرنے دو رب کو
مصطفٰی کے خدا سے مطلب ہے
دوسروں پر قلم نہیں لکھتا
ہم کو اُن کی ثنا سے مطلب ہے
ان کا یقین اتنا کامل ہے کہ ان کا قلم لکھتا ہے
نظر کو جس طرف لوگو اٹھاؤ گے محبت سے
محمد ﷺ ہی محمد ﷺ ہیں یہ کہتے عارفاں دیکھے
اللہ جل شانہ ھو اپنے محبوب کی توصیف بھی انہی کو بیان کرنے کی سعادت نصیب فرماتا ہے جو اخلاص سے اس رستے کے متلاشی ہوتے ہیں اور پھر شاہ صاحب تو اک اک دھڑکن کے ساتھ جب آقا کو یاد کریں گے تو ان کا قلم بھی پکار اٹھے گا کہ
سلام دل نظر اپنی جھکا کر بھیجتا ہوں تو
مدینہ روبرو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے
خیالوں میں نہ بسنے دیں اگر دنیا کی رونق کو
نبی کی جستجو ہو جائے تو پھر نعت ہوتی ہے
سید حبدار قائم ہر وقت مستی کے جام منہ سے لگائے نظریں جھکائے دل میں آقا کی محبت کے چراغ جلائے اور لرزتے ہاتھوں کو حوصلہ دئیے کانپتے قلم کو اس کی حرمت
کی قسم دے کر کہتے ہیں مجھ سے میرے جذبوں کی عکاسی نہیں ہوتی تجھے قسم تیرے بنانے والے کی قسم تو میرے ہاتھوں کی لاج رکھ لے میری ندامت کو دیکھ اور تجھے تیرے خالق کی قسم اسی کے حکم سے رواں ہو جا جس نے تجھے میرے ہاتھوں کی گرفت میں دیا ہے تو پھر تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں اور سننے والوں پر سماں بندھ جاتا ہے ۔
دل دھڑکنے لگا نعت ہونے لگی
مجھ پر ان کی نظر مدھ بھری ہو گئی
قائم بے نوا ،بے نوا ہے کہاں
جب زباں سے بیاں ذاکری ہو گئی
اللہ پاک ان کے قلم کو رواں رکھے اور ہمیں ان کی نعتیں پڑھنے کو ملتی رہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے ۔
ڈاکٹر عبدالرشید آزاد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔