انسان کو اللہ تعالیٰ نے فطرت پر پیدا کیا ہے اور فطرت خدا کی تخلیق میں جھلکتی ہے۔
کہیں وسیع و عریض آسمان ہے جس کی انسانی سوچوں کی طرح کوئی وسعت نہیں تو کہیں بلند و بالا پہاڑ ہیں جو منجھے ہوئے جذبات و احساسات کی طرح انتہائی خوبصورت اور خوفناک حد تک خاموش ہیں۔
تو کہیں صحرا ہیں جو بہت جلد اور بہت زیادہ تغیر و تبدل کا مزاج رکھتے ہیں،آج میں آپ کو اسی انسانی فطرت اور اس کے روحانی تعلق کی سیر کروانا چاہوں گی۔
تو چلیئے تصوراتی طور پر اٹک کے شمال میں موجود وادی سوات کی سیر کو چلتے ہیں۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جن قدرتی مناظر و مقامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک مقام وادی سوات ہے جہاں جانے کا اتفاق ہوا۔
ویسے تو کئی بار جا چکے لیکن آغا جہانگیر بخاری صاحب کے کہنے پر سفر نامہ پہلی مرتبہ لکھ رہی ہوں۔
اس سفر میں کئی تجربات و مشاہدات ہوئے، مختلف ثقافتوں، زبانوں، تہذیب و تمدن، تاریخ وغیرہ کا مشاہدہ ہوا، یہ تمام اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔
موٹر وے کی وجہ سے اب سفر بہت آسان ہو گیا ہے، پہلے پشاور سے "مردان انڈس روڈ” ہائی وے کی حالت قابل رحم تھی۔آپریشن سے پہلے سوات کا راستہ نہایت ابتر تھا لیکن بعد ازاں بہت خوبصورت سڑک بنی۔تفریحی مقامات پر ہوٹلز، پلازے، مارکیٹ وغیرہ تعمیر ہو چکے ہیں خاص کر منگورہ شہر میں دریائے سوات کے کنارے پر واقع علاقے بہت خوبصورت ہیں۔
سوات کی ایک اور خوبصورتی دریائے سوات ہے جس کا سفر ہمارے سفر کے ساتھ رہا۔ کافی لوگوں کی اب یہی رائے تھی کہ پہلے کے مقابلے میں اب حالات کافی بہتر اور حکومتی کنٹرول میں ہیں۔
رات آرام کے بعد صبح اٹھے تو ہوٹل کے کمرے کے باہر دریائے سوات کے دلکش نظاروں نے سفر کی تھکن اتار دی۔
صبح کا ناشتہ مینگورہ میں کیا پھر کالام پہنچے جو سوات سے لگ بھگ 100 کلومیٹر ہے۔ سڑک کافی خراب تھی اس لیئے سفر میں کچھ مشکل پیش آئی۔
وادی سوات کا شمار پاکستان کے پر فضا مقامات میں ہوتا ہے۔
دریائے سوات کی سرد لہریں ، برفیلے اور بلند و بالا پہاڑ، گھنے جنگلات، سرسبز و وسیع میدان، ہر طرف ہریالی، پھلوں کے باغات، چشمے اور شفاف ندیاں، بلند آبشاریں، گلیشیر اور سرد ہوائیں، اس کے موسم اور خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔
اب کچھ وادی سوات کے بارے میں۔
سوات جہاں اپنی خوبصورتی اور رعنائی کے لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے وہیں یہ ماضی میں آزاد و خودمختار ریاست کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال پرانی تہذیب بھی اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔ ہر سال آثار قدیمہ کو دیکھنے کے لیئے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد سوات کا رخ کرتی ہے۔ یہاں 2200 کے قریب تاریخی مقامات موجود ہیں۔
سوات ایک سابقہ ریاست تھی جسے 1970 میں ضلع کی حیثیت دی گئی۔ مالاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام سیدو شریف ہے اس ہی ضلع میں واقع ہے۔
سوات کو خیبرپختونخوا میں امتیازی حیثیت حاصل ہے سوات مختلف تہذیبوں، تقافتوں اور قدیمی آثار کا گہوارہ ہے۔
سوات کا زکر سب سے پہلے "رگ وید” میں کیا گیا ہے۔یہودی مذہب میں سوات کے معنی ہی جنت کے ہیں۔
بدھوں کا یہ Vatican City ہے۔ روایات اور بدھ مت کے دوسرے مذہبی رہنما پدما سمبھو ایارام پوجی (گوتم ثانی) سوات میں پیدا ہوئے۔ آج دنیا بھر کا "لامہ ازم” سوات ہی کی دین ہے۔
آریاؤں نے اسے (Fare Deweling Place) کہا تھا۔ سکندر اعظم 327 قبل مسیح میں افغانستان کے راستے سوات آیا، یہاں کے قبائل سے جنگ کے دوران تاریخ میں پہلی بار زخمی ہوا اور یہی زخم بعد ازاں اس کی موت کا سبب بنا۔
سلطان محمود غزنوی نے لگ بھگ ایک ہزار سال قبل پوری وادی کو فتح کیا۔ غزنوی کی تعمیر کردہ مسجد آج بھی اوڈیگرام میں موجود ہے۔
دور جدید کی وادی سوات۔
پاکستان کے سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 1963 میں سوات کے مشہور عجائب گھر کی بنیاد رکھی.
(سفید محل) مینگورہ سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ہے۔ سوات میں فلک بوس پہاڑوں اور سر سبز جنگلات کے بیچ و بیچ وادی مرغزار کا سفید محل فن تعمیر کا شاہکار ہے۔
White Palace Swat کے نام سے اس محل کی عمارت سوات کے حکمران کا کیمپ ہاؤس ہوا کرتی تھی۔
24 کمروں پر مشتمل white Palace vector bin فن تعمیر کا نمونہ ہے۔
اس محل کی تعمیر کا فیصلہ والی سوات میاں گل عبد الودود بادشاہ صاحب نے 1935 میں کیا۔
1941 میں سفید محل کو تعمیر کیا گیا۔
وادی سوات ایک ایسی کہانی ہے جو بڑی دلچسپ اور دلکش ہے۔یہاں سیاحتی موسم یعنی جون سے اگست کے دوران سیاحوں کا خاصا رش رہتا ہے۔
مینگورہ اور سیدو شریف۔ سطح سمندر سے 3250 فٹ بلندی پر واقع ہیں۔
مینگورہ اور سیدو شریف کے جڑواں شہر سوات بالترتیب کمرشل اور انتظامی دارالحکومت کہلاتے ہیں۔
مینگورہ وادی سوات کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے جب کے سیدو شریف میں تمام سرکاری دفاتر کے علاؤہ اب PTDC کا موبائل اور انفارمیشن سینٹر بھی موجود ہے۔
سیدو شریف میں افغان سیدو بابا کا مزار ہے۔ بابا جی نے 1877 میں وفات پائی۔
بانی سوات عبد الودود کا مزار بھی قابل دید عمارت ہے۔ 160 مربع کیلومیٹر کے علاقے میں 400 سے زائد بدھ مت کی خانقاہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وادی سوات کے خوبصورت سفر کو تمام کرتے ہوئے ایک آخری نقطہ بیان کرتی چلوں جیسا کہ پہلے پیرے میں بیان ہوا کہ یہ سفر گھومنے پھرنے اور سیر و تفریح سے زیادہ محسوس کرنے کے لائق ہے۔ ان وادیوں میں عشق الٰہی کی جو جھلک نظر آتی ہے وہ شاید عبات گاہوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔
وادی سوات میں تیزی سے بہتے ہوئے دریا کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے جوش میں اپنے ہی کناروں کو ہی کاٹتا ہوا نکل جائے گا۔
لیکن یہی دریا اٹک کے مقام پر آ کر انتہائی پر سکون، خاموش اور گہرائی میں وسیع تر ہو جاتا ہے۔
عشق حقیقی کی مثال بھی ایسے ہی ہے جس پر قدم رکھتے ہی دریائے سوات کی طرح انسان شور شرابا کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ حقیقت سے کتنا دور ہے جیسے علامہ اقبال نے فرمایا
یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا
ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تُو دریا میں گھبرا بھی گئی!
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔