موسم گرما کی تعطیلات اور سمر کیمپ
موسم گرما کی چھْٹیاں ہوتے ہی طلبا و طالبات کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا،جبکہ خوشی کی بات یہ کہ عید الضحٰی موسم گرما کی چھٹیوں میں آرہی ہے، ان چھٹیوں کا لطف دوبالا کرنے کے لئے بچے مختلف پروگرام ترتیب دیتے ہیں اس موقع پر اپنے عزیزواقارب کے ہاں جانے کے پروگرام بنتے ہیں،معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے تفریحی مقامات پر جایا جاتا ہے، شمالی علاقہ جات کی سیر کی جاتی ہے جبکہ بچوں کی اکثریت سمر کیمپ کو ترجیح دیتی ہے۔بہت سے سکول و کالجز بھی سمر کیمپ پروگرامز کا اعلان کردیتے ہیں اور بہت سے ایجوکیشنل اکیڈمیز یا کمیونٹیز بھی سمر پروگرامز کا انعقاد کرتی ہیں تاکہ بچوں کے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اس ضمن میں بچوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق پروگرام مرتب کرکے دیے جاسکتے ہیں۔
سمر کیمپ ایسا ہونا چاہئے جہاں طا لبِ علموں کی ذہنی آبیاری ہو،کھیلوں کاسامان ہو۔وسیع وعریض گراؤنڈز ہوں،تقریری مقابلے ہوں، پینٹگز کے مقابلے ہوں،غرضیکہ بچوں کی دلچسپی کے ہرقسم کے پروگرامزشامل ہونے چاہئیں ۔ یوں تو تعلیمی اداروں میں تقریباً سارا سال بچوں کے لئے نصابی و غیرنصابی گرمیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن موسم گرما کی چھٹیوں میں خاص طور پرسمر کیمپ کا اہتمام کیا جاتا ہے،جہاں بچے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ سمر کیمپ میں مختلف موضوعات پر تقریبات ہوتی ہیں اس لئے کہ طلبہ و طالبات کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی آبیاری اور معلومات میں بھی اضافہ ہواور وہ بڑے ہو کر معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔ مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ طلبہ وطالبات ان تقاریب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو باصلاحیت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، مختلف مقابلوں میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ بچے مختلف زبانوں میں ملی نغمے اور ترانے پیش کر تے ہیں۔ اس کے علاوہ سمر کیمپس میں طلبہ و طالبات کو عملی کام سکھانے کا اہتمام بھی کیا جا تا ہے۔ کئی ایسے سمر کیمپ ہیں جہاں طلبہ و طالبات کو کوکنگ و بیکنگ کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔آج کل لڑکیاں ہی نہیں ، لڑکے بھی کھانے پکانے میں دلچسپی لیتے ہیں تو،انہیں ایسے سمر کیمپ میں بھیجا جاسکتا ہے جہاں بچوں سے ہی پوچھ کر ڈش کا انتخاب کیا جاتاہے اور اس کی تیاری کرتے ہوئے بچوں کو تمام چیزوں کے بارے میں بتایا جاتاہے اور چھوٹے چھوٹے کام بچوں سے بھی کروائے جاتے ہیں۔
طالبِ علموں کو باغبانی بھی سکھائی جاتی ہے۔ بچے روزانہ کیاری کی دیکھ بھال کرنے اور پودوں کو بڑھتادیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس سے بچوں میں اپنا کام خود کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ پکنک اور مختلف تفریحی و مطالعاتی دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، خاص طور پر تاریخی مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے۔
آرٹ اینڈ کرافٹ سمر کیمپ کا خا ص حصہ ہو تے ہیں۔ بچوں کو پینٹنگ کرنے کے لیے بڑی شیٹ اور پینٹ دیا جاتاہے لیکن یہ کام کرنے سے پہلے فرش پر اخبار یا پلاسٹک بچھوائیں پھر اس پر شیٹ رکھ کر ان سے پینٹنگ کروائیں۔ بچے اپنی پسند کی چیزیں بنانے میں انجوائے کریں گے۔ جب وہ اپنا کام کر چکیں تو تمام چیزیں سمیٹنے کی ہدایت کریں اور جگہ کو صاف کروائیں۔
مختلف سائز کے موتی اور تار بچوں کو دیں اور انھیں جیولری بنانے میں مصروف کریں۔ یہ کام چھوٹے بچے بھی کرسکتے ہیں۔ بچے جیولری بنانے میں بہت دلچسپی لیں گے اور اپنی بنائی ہوئی جیولری پہننے میں انھیں بھی بہت ہی اچھا لگے گا۔
بچوں کو لائبریری لے جایا جاتا ہے۔ جہاں بچوں کو دلچسپ معلوماتی اور کہانیوں کی کتابیں دی جاتی ہیں تاکہ کورس کی کتابوں کے علاوہ بچے مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھیں ۔کتابیں پڑھنے کا الگ ہی مزہ ہے۔ پڑھنے سے انہیں ، لکھنے کا شوق ہوگا اور ان کا تخیل مزید پروان چڑھے گا۔
بہت سے سمر کیمپ کمیپوٹر کورسز پر مشتمل ہوتے ہیں ، جہاں بچے بنیادی تعلیم سے لے کر گرافک ڈیزائننگ بھی سیکھتے ہیں اور پروگرامنگ میں بھی صلاحیتوں کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔
اگر بچہ انگلش بولنے ، سمجھنے یا سمجھانے میں مشکلات کا شکار ہے تو یہی موقع ہے کہ اسے انگلش لینگویج کورس کروائیں ،اگر اس کی انگلش اچھی ہے تو پھر دیگرزبانیں جیسے فرینچ یا چائنیز لینگویج بھی سیکھنے بھیجا جاسکتاہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے بچے ایک سے زیادہ چیزوں میں مہارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر نصابی سرگرمیاں شخصیات ابھارنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ وقت میں غیرنصابی سرگرمیوں پر توجہ بہت ہی کم دی جا رہی ہے۔ بیالوجی، سائیکلولوجی اور نیورولوجی میں ہونے والی جدید تحقیق نے بھی کھیلوں کی اس غیرنصابی سرگرمی کی لازمی ضرورت کو ثابت کیا ہے۔عموماََ بچے پانچ ماہ کی عمر میں دستیاب چیزوں کے ساتھ کھیلنے کی ابتدا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے ننھے منے سائنسدان ہوتے ہیں۔ بچے تجربے کرکے چیزوں کی خصوصیات جان لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کام کیسے کرتی ہیں؟ ان کے ساتھ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ پھر ان سے ملتی جلتی اشیاء پر بھی یہی تجربات کرکے دیکھتے ہیں۔ چیزوں کو توڑنے جوڑنے کی کوشش میں جو مشکلات انہیں درپیش ہوتی ہیں، ان پر اپنی عقل کے مطابق قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے بچوں نئے نیورل کنکشن قائم کرتے ہیں اور بچوں میں ذہنی نشوونما پروان چڑھتی ہے، جو انہیں اپنے اردگرد کے ماحول سے جڑے رہنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔
اگر بچوں کو غیرنصابی سرگرمیوں سے دور رکھا جائے تو وہ نیورل کنکشن قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نصابی سرگرمیوں میں بہ نسبت دوسرے بچوں کے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے سمجھنے کی صلاحیت میں ایک حد تک خلل واقع ہوجاتا ہے۔ ایسے بچوں کے لیے ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ناممکن ہوتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں سکول میں پڑھائی کے اوقات میں اضافہ اور بے جا ٹیسٹ کی وجہ سے بچے ہر وقت پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی غیرنصابی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں، جو بچوں کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ سکول میں دیا جانے والا ہوم ورک اور ٹیوشن ورک سے بچہ ہر وقت اسکول کے ماحول سے جڑا رہتا ہے۔ اسے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ جن بچوں کو کھیل کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ایسے بچوں کے دماغ میں نقص رہ جاتا ہے۔ بڑھوتری کے مطابق جو بچے نہیں کھیلتے یا جن کو کھیلنے کے مواقع نہیں ملتے ان کے غیر معمولی حد تک متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ آج صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ میدان ویران پڑے ہیں۔ بگڑتے حالات کی وجہ سے بچے آزادی سے کھیل نہیں سکتے۔ بچے اسکول کے بعد ذہنی طور پر اس قدر تھک چکے ہوتے ہیں کہ وہ کھیلنے کے بجائے گھر پر بیٹھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور گھر گھر میں موجود انٹرنیٹ کی سہولت ان کے لیے مزید مسئلہ بن چکی ہے۔ پڑھائی کے بعد وہ اپنا وقت انٹرنیٹ کو ہی دینا پسند کرتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان آباد رکھنے کے لیے اور بچوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے اسکول وکالج انتظامیہ کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
Title Image by Rosy / Bad Homburg / Germany from Pixabay
کالم نگار، ایجوکیشنٹ، شعبہ تعلیم تربیت، پرنسپل الائیڈ سکولز پنجاب گروپ آف کالجز راولپنڈی
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔