چینی والی روٹی

چینی والی روٹی


کہانی کار : سید حبدار قائم

جیدی تیسری جماعت میں پڑھتا تھا سکول میں اُس کو استاد جو بھی سبق دیتے تھے وہ یاد کر لیتا تھا جب اسے ماں سکول کے لیے ٹفن تیار کر کے دیتی تھی تو پیار سے کہتی تھی میرا بیٹا ایک دن بہت بڑا انسان بنے گا جو نہ صرف میرا بل کہ ملک کا نام بھی روشن کرے گا اور جب میرا بیٹا کوئی بڑا کام کرے گا تو میں اسے چینی والی روٹی پکا کر کھلاوں گی جیدی کے دل میں چینی والی روٹی کی خواہش بڑھ رہی تھی
دن گزرتے رہے جیدی نے گاوں سے پانچ جماعتیں پاس کر کے شہر کے ہائی سکول میں داخلہ لے لیا
ماں پہلے دن کی طرح اسے کہتی رہی کہ جب تو بڑا کام کرے گا تو میں تجھے چینی والی روٹی کھلاوں گی اُس دور میں مائیں بچوں کے کام سے خوش ہو کر میٹھی روٹی پکا کر کھلاتیں تھیں جسے بچے مزے لے لے کر کھاتے تھے اور گھر کے کام خوشی سے کرتے تھے
جیدی سکول سے واپس آ کر ہوم ورک مکمل کرتا اور ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیتا
اسی طرح اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا غریبی کی وجہ سے مزید نہ پڑھ سکا اور کھیتوں میں ہی کام کرنے لگا

وہ مال مویشیوں کے لیے کھیت سے چارہ لے آتا تھا اس کے جانور بھی صحت مند تھے جیدی دودھ پیتا، لسی اور مکھن بہت شوق سے کھاتا تھا ایک صحت مند بچہ جوان ہو کر اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا
ایک دن جیدی کھیتوں میں چارہ لینے کے لیے چلا گیا ابھی وہ کام میں مصروف تھا کہ گاوں کی مسجد میں اعلان ہوا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں دشمن کی فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں اگر کوئی جوان ملک کے دفاع کے لیے بھرتی ہونا چاہے تو اپنے علاقے کے بھرتی دفتر میں پہنچے
جیدی ملک کی حفاظت کے لیے دل ہی دل میں تیار ہوا اور چارہ لے کر گھر پہنچا
گھر جاتے ہی ماں سے کہا کہ دشمن میرے وطن پر حملہ کرنے کا سوچ رہا ہے اس لیے میں فوج میں جانا چاہتا ہوں ماں نے اسے اجازت دے دی چناں چہ وہ بھرتی دفتر گیا اور فوج کی ایف ایف رجمنٹ میں بھرتی کر لیا گیا
اسے فوجی ٹریننگ کے لیے سینٹر میں بھیج دیا گیا ابتدائی ٹریننگ کے بعد اسے سیاچین گلیشیئرز میں بالکل بارڈر کے ساتھ ایک پوسٹ پر بھیج دیا گیا جہاں پر وہ اور اس کے دوست سپاہی شاکر کو مشین گن ایمونیشن اور بندوقیں دی گئیں جیدی کو اپنے استاد نے دشمن کے علاقے کے نشانات سمجھا دیے اور نقشے کی مدد سے دشمن کے راستوں کے بارے میں بھی بتا دیا

چینی والی روٹی


ایک دن جیدی اور اس کے دوست کو ڈیوٹی کے لیے اٹھایا گیا تو صبح کی اذان ہو چکی تھی بالکل تھوڑی تھوڑی روشنی میں جیدی نے دیکھا کہ دشمن کی طرف سے کچھ فوجی پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں اُس نے ٹیلی فون پر اپنے سینیئرز کو اطلاع دی اور اپنے دوست کو اپنے ساتھ مورچے میں چوکس کر دیا اور انتظار کرنے لگا کہ جب دشمن کے آدمی اُس کی فائرنگ رینج میں آ جائیں تو ان پر فائر کھولے
وطن کے دونوں محافظ بالکل نگاہیں جماۓ ہوۓ چوکس بیٹھے تھے کہ دشمن کے فوجی ان کی فائرنگ رینج میں داخل ہو گۓ جیدی نے اُن پر فائر کھول دیا دشمن بروقت کاروائی پر بوکھلا گیا جیدی کی مشین گن شعلے اگل رہی تھی اور دشمن کے سینے چھید رہی تھی جو دشمن بھی گولی لگنے سے گرتا تو جیدی دھیمی آواز میں کہتا
چینی والی روٹی چینی والی روٹی
جیدی نے پندرہ دشمن واصل جہنم کیے دائیں طرف والی پہاڑی سے کچھ دشمن جیدی کے مورچے کے قریب پہنچ چکے تھے جن میں سے ایک دشمن نے دستی بم سے حملہ کیا جس کی وجہ سے جیدی شہید ہو گیا جیدی کے دوست سپاہی شاکر نے اپنی رائفل سے فائر کر کے جیدی کو شہید کرنے والے دشمن کو جہنم واصل کیا پاکستانی فوج کے دوسرے مورچوں والے جوان بھی فائرنگ کر رہے تھے اس لیے دشمن بری طرح پسپا ہو گیا تھا اور اس کے بہت سارے فوجی قتل ہوئے جو بچ گۓ انہوں نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی
جیدی کا دوسرا دوست سپاہی شاکر چوں کہ اُس کے علاقے کا تھا اس لیے فوج نے اسے حکم دیا کہ وہ جیدی شہید کا میت لے کر اُس کے گاوں جاۓ آخر کار جیدی کا جسم سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر گاوں بھیجا گیا تو سپاہی شاکر بھی شہید کو دفنانے اور سلامی دینے کے لیے گاوں گیا
جیدی کی تدفین کے بعد جیدی کی ماں نے اس کے دوست سپاہی شاکر سے پوچھا کہ بتاو میرے بچے نے کیسی جنگ لڑی ہے ؟
تو جیدی کے دوست نے کہا کہ ماں جی آپ کا بیٹا بہت بہادر تھا اُس نے پندرہ دشمن واصل جہنم کیے لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جب بھی کوئی دشمن مارتا تھا تو دھیمی آواز میں کہتا تھا
چینی والی روٹی چینی والی روٹی
جب ماں نے سنا تو اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے اور اس نے سپاہی شاکر کو ساری بات سنا دی کہ کس طرح وہ اسے بڑا کام کرنے کے بدلے میٹھی روٹی کھلانے کا وعدہ کرتی تھی آج جیدی نے بڑا کام کر دکھایا تھا لیکن وہ اسے چینی والی روٹی نہ کھلا سکی
جیدی کی ماں نے سپاہی شاکر سے کہا کہ بیٹا یہاں ہی ٹھہرو اور یہ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی اور
ایک چینی والی روٹی پکا کر جیدی کے دوست شاکر کو کھلا دی۔ اور کہا کہ میرا بہادر بیٹا جیدی تو چینی والی روٹی نہ کھا سکا لیکن تُو بھی تو میرا بیٹا ہے یہ تُو کھا کر ماں کا کلیجہ ٹھنڈا کر
شاکر نے واپس جا کر جب اپنی یونٹ والوں کو شہید جیدی کا یہ واقعہ سنایا تو سب نے جیدی کی بہادری کا اعتراف کیا اور یہ ملی نغمہ گا کر اُسے خراجِ تحسین پیش کیا

اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن، پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن پیارے وطن

تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
عزم میرا قوی، میرے ارادے ہیں غیور
میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
اے میرے پیارے وطن

اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن، پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن پیارے وطن

تو دل افروز بہاروں کا تر و تازہ چمن
تو مہکتے ہوئے پھولوں کا سہانا گلشن
تو نواریز انا دل کا بہاری مسکن
رنگ و آہنگ سے معمور ترے کوہ و دمن
اے میرے پیارے وطن

اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن، پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن پیارے وطن

میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
میرا سینا تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن
اے میرے پیارے وطن

اے وطن، پیارے وطن، پاک وطن، پاک وطن
اے میرے پیارے وطن
اے وطن پیارے وطن

جب نغمہ ختم ہوا تو جیدی کے لیے ہر آنکھ رو رہی تھی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

جب کیمبل پور جل رہا تھا

پیر اکتوبر 14 , 2024
جب بٹوارہ ہو چکا تو لوگوں نے کس طرح املاک پر قبضے کیے جھوٹے فرضی کلیم داخل کروائے گئے قیمتی جائیدادیں رشوت کے ذریعہ ہتھیا لی گئیں
جب کیمبل پور جل رہا تھا

مزید دلچسپ تحریریں