صوفی ازم
صوفی ازم معنویت کے اعتبار سے عملی زندگی میں ایسا فکر و فلسفہ ہے کہ جس کے زریعے انسان اپنے جسم اور روح کی یوں تربیت و بالیدگی کرتا ہے کہ جس سے وہ انسانیت کے اعلی ترین درجہ و مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کو یہ مقام و مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے جب وہ دنیا کو ترک کیئے بغیر اپنے اندر سے لالچ، جھوٹ اور دنیاداری وغیرہ کو ختم کر کے مومن کے رتبہ پر فائز ہو جاتا ہے جہاں پر پہنچ کر سورتہ بقرہ کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اللہ اس کے ہاتھ، پاو’ں، دل اور آنکھیں وغیرہ بن جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں مومن کو "احسن تقویم” اور "خلیفتہ الارض” کے القابات سے موسوم کیا گیا ہے جس کی تخلیق اللہ رب العزت نے روئے زمین کی مٹی سے اور اس میں اپنی روح کو پھونک کر کی جس کے بعد وہ اللہ کے عطا کردہ "علم الاسماء” (چیزوں کے نام و اوصاف کا علم) کی وجہ سے مسجود ملائک ٹھہرا۔
صوفی ازم یا صوفی ایک روحانی اصطلاح ہے جو خدا اور انسان دوست لوگ اپنے بارے میں استعمال کرتے رہے ہیں جس کے زریعے وہ اپنا تزکیہ نفس کرتے ہیں، برائیوں سے پرہیز کرتے ہیں اور حرص و تمع اور مادی مفادات وغیرہ سے اتنے بے غرض ہو کر پاکبازی کی ان بلندیوں پر فائز ہو جاتے ہیں جس کا زکر قرآن پاک میں مومن کی صفات و کردار کے حوالے سے آیا ہے۔ مومن کی یہ شان نفوس قدسیہ کے ضمرے میں آتی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن،
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت،
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندہ خاکی،
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسی کو نہيں معلوم کہ مومن،
قاری نظر آتا ہے، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے،
دنيا ميں بھی ميزان، قيامت ميں بھی ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم،
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز،
آہنگ ميں يکتا صفت سورہ رحمن
بنتے ہيں مری کارگہ فکر ميں انجم،
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
برصغیر میں یہ اصطلاح فنا فی اللہ، فقراء اور درویشوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ تصوف کھردرے کپڑے سے نکلا ہے یا اہل صُفہ سے مشتق ھے یا اس کا کچھ اور بیک گراونڈ ہے (یہ ایک ثانوی مسئلہ ہے) مگر اہل شریعت اس کو زیادہ تر صُفہ ہی سے جوڑتے ہیں۔ صُفہ سے مراد مسجد نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے منسلک ایک چبوترہ ہے جسے صُفہ کہتے ہیں۔ اہلِ صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کر کے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔ گویا یہ بارگاہ نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خاص خدمت گزار طالب علم تھے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے براہ راست فیضان حاصل کرتے تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحابِ صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کو "صوفی” کہا جاتا ہے۔
صوفی کی تعریف، صوفیاء کے نزدیک یہ ہے کہ ”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“
حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق ”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اُسی کا ہو کر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“ حضرت عمر بن عثمان مکی رح کہتے ہیں کہ ”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع الله کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رح کا فرمانا ہے کہ منقطع عن الخلق و متصل بالحق یعنی ”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“
صوفی ازم اسلام سے جدا نہیں، صوفیاء جیسا کہ مذکورہ بالا حقائق سے بھی ظاہر ہوتا ھے ، رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں موجود رہے ھیں مگر اس وقت انہیں صوفی کا نام نہیں دیا گیا تھا بلکہ اس زمانے کے تمام مومن و متقین لوگ ایک ھی اصطلاح سے جانے جاتے تھے یعنی صحابہ رسول۔ پھر بعد میں آنے والے عظیم مسلمانوں کیلئے تابعین اور اس کے بعد والوں کیلئے تبع تابعین کا لفظ استعمال ہوتا گیا۔ امام قشیری کے مطابق صوفی کا لفظ 822 سے دیکھنے کو ملتا ھے۔ ان کے بقول تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لیے یہ (متبادل) لفظ صوفی بن گیا۔
لیکن عصر حاضر میں برصغیر کے مسلمانوں میں صوفی ازم خانقاہی نظام تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں محفل سماء ہے، لنگر خانے اور بعض صورتوں میں چندے اور نذرانے ہیں حالانکہ صوفی ازم دنیاوی مفادات سے اوپر اٹھا کر آپ کو اخلاقی بلندی کے اس مقام پر لے جانا چاہتی ہے جس میں نفسا نفسی، لالچ، بغض، حسد، غیبت، بہتان، انتقام، دشمنی اور منافرت وغیرہ جیسی روحانی بیماریاں نہ ہوں، جو عدل سے بھی آگے بڑھ کر مقامِ احسان و ایثار تک پہنچاتی ہے یعنی آپ کا جو حق بنتا بھی ہے، صلہ رحمی، انسان نوازی اور جذبہ احسان و مروت و اپنائیت کے تحت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کو عطا کر دیں اور خود پیچھے ہٹ جائیں۔ سادگی، عاجزی، انکساری، حلیمی اور درویشی کے اوصافِ حمیدہ اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے انسانیت سے بےلوث محبت کی طرف گامزن ہو جائیں یہی وہ نگاہِ فقر ہے جس کے سامنے شانِ سکندری سرنگوں ہو جاتی ہے۔ یہی معرفت عظمتِ انسانی ہے، فرشتے جس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں، یہی سوز و گداز انسانیت کا جوہر ہے۔ یہ وارداتِ قلبی و ذہنی جب براستہ تصوف و درویشی آگے بڑھتی ہے مقام آدمیت تک جا پہنچتی ہے جس کا ذکر قرآن کے فلسفہ مومن میں ملتا ہے (جس کا پہلے ذکر آیا ہے) اور جس کی وضاحت اقبال نے خلاصتا اس ایک شعر میں کی ہے کہ:
يہ راز کسی کو نہيں معلوم کہ مومن،
قاری نظر آتا ہے، حقيقت ميں ہے قرآن!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔