کامیاب کاروبار اور مخلص عملہ
دنیا کی کامیاب اور امیر ترین شخصیت بل گیٹس کا ایک مشہور قول ہے، "Don’t invest in business but in people” کہ کاروبار میں پیسہ لگانے کی بجائے لوگوں پر لگائیں”۔ یہ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے اور اسے کامیاب بنانے کا ایک ایسا نسخہ کیمیا ہے جس سے آپ اپنی کاروباری کامیابی کے لیئے ایک قابل اعتماد ٹیم کی بنیاد رکھتے ہیں جس سے آپکی کامیابی کے امکانات سو فیصد حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے پہلے آپ بجٹ کا انتظام کرتے ہیں اور پورا "ہوم ورک” کرنے کے بعد کاروبار کا آغاز کرتے ہیں جس کے لیئے عملی کاروبار کی ابتداء آپ کے زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم ہی کرتی ہے۔ اگر آپ اپنا عملہ یعنی جنرل منیجر، ریکروٹنگ باڈی، اکاؤنٹنٹ، مارکیٹنگ منیجر یا کلرک وغیرہ میں سے کسی ایک بھی رکن کا غلط انتخاب کرتے ہیں، تو وہ اپنے فرض سے غفلت یا بددیانتی وغیرہ کرتا ہے تو وہ آپ کی کاروباری ناکامی کا باعث بن سکتا ہے۔
دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جتنے بھی کامیاب بزنس مین ہیں وہ سب سے پہلے اپنے کاروباری عملے کی وفاداریاں خریدتے ہیں جن کی محنت اور امانت داری کی وجہ سے وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک بڑے بزنس مین کے نیچے ایک سے دو یا سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں عملہ ہو سکتا ہے۔ کاروبار کے مالک کا کاروبار ایک گاو’ں، شہر یا ملک سے زیادہ جگہوں پر بھی ہوتا ہے مگر مالک ہر جگہ موجود نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو یہ بھی ممکن ہے کہ ایک کامیاب بزنس مین سکون سے اپنے گھر فیملی کے ساتھ انجوائے کر رہا ہوتا ہے مگر اس کا کاروبار لاتعداد مقامات پر کامیابی سے چل رہا ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ایسا سیانا بزنس مین اپنا پیسہ، وقت اور عقل اپنے عملے کو خریدنے پر صرف کرتا ہے۔
دراصل کاروبار کی بجائے لوگوں پر سرمایہ کاری کرنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ نے اپنے کاروباری حلقہ میں ایسے لوگوں پر اعتبار کرنا ہے جو آپ کو دھوکہ نہ دیں بلکہ ہمیشہ آپ کی امیدوں پر پورا اتریں یعنی کاروباری کامیابی کی کنجی آپ کے حلقہ احباب ہی ہیں جو بعض دفعہ لوگوں کو خوش قسمتی سے دستیاب ہو جاتے ہیں یا اس کام کی انجام دہی کے لیئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے سرمایہ ایک غلط آدمی پر لگایا یا اس سے کاروبار اور دفتر وغیرہ شیئر کر لیا جس سے آپ کی جمع پونجی ڈوب گئی۔ بے شک اکیلا آدمی کامیاب کاروبار نہیں کر سکتا مگر نیا بزنس شروع کرنے اور رسک لینے سے پہلے ہر پہلو سے سو بار سوچنا چایئے کہ آپ سرمایہ لگانے کے لیئے کس کردار کے مالک شخص پر اعتبار کر رہے ہیں۔ بعض لوگ صرف کاروباری حد تک اچھے دکھتے ہیں۔ "جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے”۔ یہ لوگ اس اصول کو اپنا کر دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں، اچھا اور بڑا دفتر لیتے ہیں، بڑی بڑی پارٹیاں کرتے ہیں اور تحائف وغیرہ دیتے ہیں مگر درحقیقت ان کا یہ چکا چوند روپ صرف کاروباری حد تک ہی ہوتا ہے۔ لھذا پیسہ انوسٹ کرتے وقت ہر ایرے غیرے پر اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا اور ہر بظاہر نکمے آدمی کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کامیاب تاجر کو ہمیشہ کوئی اچھا آدمی ملتا ہے، مواقع پیدا ہوتے ہیں یا جب وہ اپنا تعلق اپنے گاہگوں سے بناتا ہے تو وہ یا اس کا عملہ گاہکوں (Customers) کے ذہن میں اپنا ایک بہتر امیج تعمیر کرتا ہے جس سے اس کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتا ہے۔
گزشتہ دنوں میری ملاقات ایک کامیاب بزنس مین انوارالحق سے ہوئی تو انہوں نے اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے اس کا سارا کریڈٹ اپنے عملے کو دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس مارکیٹنگ کے لیئے مختلف قومیتوں کا 120کارکنوں کا عملہ ہے اور اس میں کوئی ایک بھی ایسا ورکر نہیں کہ وہ جس کو رات 2بجے بھی فون کر کے کسی کام کے لیئے جگائیں تو وہ اس کے سامنے انکار کر سکے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انوارالحق نے بتایا کہ وہ ہر ماہ جتنا کماتے ہیں اس کا 90فیصد حصہ اپنے ورکروں پر خرچ کرتے ہیں اور بقیہ صرف 10% اپنے پاس رکھتے ہیں۔ باس کے اس مہربان نما کاروباری رویئے سے ایک تو آپ کے عملہ کا ہر کارکن آپ سے وفادار رہتا ہے، آپکے کاروبار کو اپنا کاروبار سمجھ کر کرتا ہے دوسرا اس کے دل میں آپ کا عزت و احترام محبت کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
ان کی کاروباری کامیابی اور اس حقیقت کو جانچنے کے لیئے اس کے ایک ہفتہ کے بعد میں نے ان کے ایک محمد عثمان نامی عملہ کو کافی بڑی تنخواہ کی آفر کروائی مگر انہوں نے اسے ٹھکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ عمر بھر اپنے باس کے پاس ہی کام کرنا چاہتے ہیں تاآنکہ وہ خود انہیں نہ نکال دیں۔ یہ سننے کے بعد میں نے بھی کاروبار میں دوسروں کا دل جیتنے کے اس تجربے کو خود پر لاگو کر کے چند دن بعد اپنی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ میں گزشتہ چار سالوں سے کاروبار میں ناکام جا رہا تھا پھر میں نے اپنے ایک دو اچھے گاہگوں کو "مفت سروس” دینا شروع کر دی اور اس کے بعد ان کا دل ایسا نرم ہوا کہ میں حیران رہ گیا کہ انہی مفت والے گاہکوں سے مجھے ڈھیر سارے منافع والا کام ملنا شروع ہو گیا۔
اچھا اور کامیاب کاروبار وہی ہے جس میں آپ منافع کی جگہ لوگوں کی محبت اور وفا کو خرید لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیئے کچھ کامیاب بزنس مین اپنے کاروبار میں اللہ پاک سے شراکت داری کرتے ہیں مثلا وہ اپنے منافع میں سے خیرات اور نیک کاموں کے لیئے 2 یا 5 فیصد حصہ نکالتے ہیں جس سے ایک تو پبلک میں ان کا نیک نامی کا تشخص بہتر ہوتا ہے دوسرا ان کے کاروبار کی کامیابی میں لوگوں کی دعائیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔
ایک کامیاب بزنس مین اپنا ہی نہیں دوسرے دو چار یا درجنوں، سینکڑوں گھروں کا چولہا بھی جلاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہی نہیں ایک احسن اور پسندیدہ "عبادت” بھی ہے۔ دوسروں کو خوشیاں دینے، ان کا کچن چلانے یا انہیں ملازم سے سے کامیاب بزنس مین بنانے میں مدد کرنے سے بڑھ کر بھلا اور کیا نیکی ہو سکتی ہے۔ یہ کامیاب کاروبار کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے جس میں اطمینان قلب بھی ہے اور یہ مشکل کام کو آسانی کے ساتھ انجام دینے کا گر بھی ہے۔ اس حوالے سے بل گیٹس کی ایک اور کہاوت ہے کہ "میں مشکل کام کروانے کے لیئے کسی سست کارکن کا انتخاب کرتا ہوں جو اسے آسانی سے انجام دینے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ لیتا ہے”۔
یوں جب بھی کوئی کاروباری شخصیت بڑے پیمانے پر کامیاب ہوتی ہے تو اس کے پیچھے یہی راز کارفرما ہوتا ہے کہ اس کا عملہ اس مخلص ہوتا ہے یا جب بھی کوئی نیا یا چلتا ہوا کاروبار تباہ ہوتا ہے تو اس میں بھی یہی وجہ کارفرما ہوتی ہے کہ اس کا عملہ اس سے "غداری” کرنے لگتا ہے۔
Title Image by 12019 from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔