غیر معیاری پانی: صحت عامہ کے لیے خطرہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے جس کے نتیجے میں بوتل بند پانی (منرل واٹر) کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے۔ تاہم حالیہ تحقیق میں ملک کے 27 منرل واٹر برانڈز کے مضرِ صحت ہونے کے انکشاف نے عوام کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (PCRWR) کی رپورٹ کے مطابق، ان برانڈز میں بعض کے پانی میں سوڈیم، آرسینک اور پوٹاشیم کی مقدار مقررہ حد سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ کچھ میں جراثیم پائے گئے ہیں جو مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں بوتل بند پانی کے کاروبار کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب صاف پانی کی قلت کے باعث شہری علاقوں میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ صنعت ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو گئی۔ تاہم اس صنعت کے لیے معیار اور قوانین کی سختی سے پابندی کو یقینی بنانا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) نے بوتل بند پانی کے معیار کے لیے ضوابط تو بنائے، لیکن ان کا نفاذ ایک پیچیدہ مسئلہ بنا رہا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیر معیاری بوتل بند پانی پینے سے دل، بلڈ پریشر اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آرسینک جیسے زہریلے عناصر کا زیادہ مقدار میں استعمال اعصابی نظام پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی کے استعمال سے ہیضہ اور دیگر متعدی امراض کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔
وفاقی حکومت نے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت PCRWR کو بوتل بند پانی کے برانڈز کی سہ ماہی جانچ کا اختیار دیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو معیاری پانی فراہم کرنے کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن جب تک حکومت سخت قوانین اور موثر مانیٹرنگ سسٹم نافذ نہیں کرتی مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
بوتل بند پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے فیکٹریوں میں سخت معائنہ اور غیر معیاری برانڈز کے خلاف سخت قانونی کارروائی ضروری ہے۔
عوام کو اس بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے کہ کون سے برانڈز محفوظ ہیں اور کن سے اجتناب کرنا چاہیے۔
حکومتی سطح پر پانی کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو صاف پانی خریدنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
بوتل بند پانی کا استعمال شہری زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے معیار پر سمجھوتہ صحتِ عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگر حکومت غیر معیاری پانی کی فروخت کے خلاف سخت اقدامات نہیں کرتی تو عوام کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف سخت قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے بلکہ عوام کو بھی اس بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |