بچپن سے ابتک یہی دیکھتا آیا کہ کھانا چائے وغیرہ ہاتھوں سے ہی بنتی ہے اور بنائی جاتی ہے۔ معلوم تاریخ سے بھی یہی شواہد ملے کہ ہر دور میں یہ کام ہاتھوں سے ہی ہوتے رہے۔
ٹی وی دیکھنے کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔ لیکن چند ڈراموں کی جھلک دیکھنے کے بعد ایک الجھن سی ہے کہ شاید ہاتھوں کے استعمال کے بغیر بھی ایسا ممکن ہے۔ وگرنہ آج کا ڈرامہ نویس اتنی وضاحت سے یہ نہ لکھ رہا ہوتا ‘ یہ چائے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی، آج میں کھانا اپنے ہاتھوں سے بناؤنگی، تم اپنے ہاتھوں سے چائے بنا دو’ وغیرہ۔ گویا یہ کہنا کافی نہ تھا کہ آج کھانا میں نے خود بنایا، تم خود مجھے چائے بنا دو۔ اگر یوں لفظ لفظ دورانیےکو طول دیا جاتا رہا تو کل یہ بھی لکھا جائیگا۔
آج کھانا میں نے اپنے دانتوں سے چبایا
پانی اپنے منہ سے پیا۔ خُوشبواپنی ناک سے سونگھی۔ وغیرہ و غیرھا. . . .
مخدوم آغا سیّد جہانگیر علی نقوی البخاری
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔