چھنو، بنو اور دھوکا
کہانی کار: سید حبدار قائم
گلہریوں کا سارا خاندان خوشحال تھا وہ جنگل میں اکھٹی رہ رہی تھیں مل کر پھل کھاتیں درختوں پر اُچھل کُود کرتیں اُن کی آواز سارے جنگل میں گونجتی رہتی جو سب کے لیے خوشی کا باعث تھی دن اسی طرح گزر رہے تھے ان سب میں دو گلہریوں کی آپس میں بہت دوستی تھی جن کے نام بنو اور چھنو تھے بنو جنگل کے سردار قبیلے جب کہ چھنو غریب قبیلے سے تعلق رکھتی تھی مگر وہ جہاں بھی جاتیں اکھٹی جاتیں مختلف درختوں سے پھل کھاتیں جنگل میں سے گزرنے والے راستے پر اکھٹی کھیلتی کودتیں اور اپنی خوبصورت آواز سے ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتیں چھنو کا گھر جنگل کے ساتھ ہی ایک مسجد کے درخت پر تھا جو گاوں کی طرف جانے والی سڑک پر تھی
ایک دفعہ دونوں کھیلنے کے بہانے باہر نکلیں تو بنو نے جو دوڑنے میں بہت تیز تھی اس نے چھنو سے کہا کہ آج درخت سے دور ہٹ کر کھیلیں گی تو چھنو نے انکار کرتے ہوۓ کہا کہ شاھین کی نظر پڑ گئی تو وہ اُنہیں کھا جاۓ گا لیکن بنو کو یہ بات اچھی نہ لگی اور غصے سے پاگل ہو گئ بنو اُسے انکار کرنے پر سزا دینے کا سوچنے لگی اور اس کا غصہ انتقام سے ہی ٹھنڈا ہو سکتا تھا بنو گلہریوں کے سردار قبیلے سی تھی جب کہ چھنو کا تعلق غریب گھرانے سے تھا
بنو نے گھر میں جا کر اپنی امی کو بتایا تو اس کی ماں رحم دل گلہری تھی اس نے بنو کو بہت سمجھایا کہ کوئ بات نہیں چھنو نے انکار کر کے دونوں کی جان بچائ ہے اس لیے دل میں انتقام لینے کا کبھی خیال نہ لانا
بنو وقتی طور پر ٹھنڈی ہو گئ لیکن دل ہی دل میں سوچتی رہی کہ کیسے انکار کا بدلہ لیا جاۓ
بنو نے ایک نئے گلہری سے دوستی کر لی اور اپنے دل کی بات بھی بتا دی کہ چھنو کے ساتھ کیا کرنا تھا نیا گلہری بہت سمجھ دار تھا اس نے دل میں سوچا کہ آج یہ چھنو کو سزا دے رہی ہے تو کل اس کی باری ہو گی
بنو نے نئے دوست سے اگلے دن چھنو کو باہر بلانے کا کہا اور دل ہی دل میں سزا دینے کا سوچا درخت سے ہٹ کر زمین میں چھپنے کے لیے صرف دو بل موجود تھے جہاں چھپا جا سکتا تھا چناں چہ اگلے دن تینوں سردی سے بچنے کے لیے اس کھلی جگہ پر بیٹھ گئے جہاں دو بل نزدیک تھے اور کھیل کود میں مصروف ہو گئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شاھین نے بہت تیزی سے حملہ کیا تو اتفاق سے چھنو ہی اس کے مضبوط پنجوں میں آ گئ اُس کا پنجہ زمیں پر لگا جس کی وجہ سے اُس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور جوں ہی وہ اڑا اور بلند ہوا تو گلہری اس کے پنجے سے گر گئ اور نیچے ایک درخت میں اٹک گئ دوسری طرف دونوں گلہریاں بل میں گھس گئی تھیں جو بلا ٹلنے پر باہر نکل آئی تھیں بنو خوشی سے پاگل ہو رہی تھی اور اُس کا نیا دوست پریشان تھا دوسری طرف شاھین کا غصہ بہت زیادہ ہو گیا تھا کیوں کہ شکار اس کے پنجے سے نکل کر گر گیا تھا اس نے دوبارہ حملہ کرنے کا سوچا اور پھر تیزی سے اسی سمت میں پرواز کی جہاں میدان میں دونوں گلہریاں کھیل رہی تھیں وہ دونوں کی طرف جھپٹا اور بنو کو اپنے پنجوں میں لے کر اڑا اس دفعہ اس نے بالکل غلطی نہ کی اور بنو کو مضبوطی سے پکڑا اور بجلی کے تاروں پر بیٹھ کر اُس کا گوشت کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا
چھنو قریبی درخت پر گری تھی جو نرم پتوں کی وجہ سے بچ گئ تھی اور یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ کس طرح خدا نے اسے بچا کر بنو کو دھوکے کی سزا دی ہے اسے دل ہی دل میں اپنی امی کی بتائی ہوئ حدیث یاد آئی جو اس نے اپنے گھر میں بیٹھ کر امام مسجد سے سنی تھی جو درج ذیل ہے
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا !
”جو شخص دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں“
( صحیح مسلم حدیث نمبر 192۔ 191)
لیکن بنو چھنو کو دھوکا دے کر اپنے پیارے آقؐا کی بات نہ مان کر سزا پا چکی تھی
پیارے بچو !
دھوکا دینے والے شخص کو اللہ اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے ناپسند فرمایا ہے اس لیے کسی کو دھوکا نہیں دینا چاہیے اور آپس میں مل جل کر رہنا چاہیے کیوں کہ مل کر رہنے میں ہی کامیابی ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔