دودھی حلوہ یا نشاستے کا حلوہ بنانا صبر آزما کام ھے ۔امی جان گندم کے دانے مٹی کی کٹوی میں ڈال کر اس میں پانی بھر دیتیں اور کٹوی کو دیوار میں بنے ہوئے آلے ( طاقچے. (Niche- مِشْكٰوة) میں رکھ دیتیں ۔روزانہ اس کو ہلاتیں ،دانےپھول جاتے اور ان کا (Shell / Bran) پھٹ جاتا۔پانچ چھ دن میں آخری سٹیج آ جاتی۔امی جان کٹوی کو طاق نسیاں سے اتارتیں پانی کا رنگ سفید ہو چکا ہوتا۔اب امی جان ململ کا کپڑا لے کر اس میں گندم کے پھولے ہوئے دانے ڈال کر پریس کرتیں ، سفید دودھ جیسی دھاریں نکلتیں۔یہ عمل کئی دفعہ دہرایا جاتا ۔ حتی کہ کپڑے میں صرف Bran رہ جاتا ۔سارا نشاستہ کٹوی میں آجاتا۔ اس کو گرم کرکے اس کا پانی سکھا دیا جاتا۔ اس سے آگے کا عمل عام حلوہ پکانے والا ہے۔ایک ہلکی سی ناخوشگوار مہک اس سارے پروگرام کا ڈرا بیک تھا۔ وسلن کی طرح نشاستے کے حلوے میں بھی ہلکی سی کھٹائی ہوتی تھی ۔۔جس سے اس کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔اب سنا ہے کہ ریڈی میڈ نشاستہ بازار میں ملتا ہے۔
چیڑ یا gum کو ہم لوگ چیبڑ کہتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں چیبڑ کی کمیابی کی وجہ سے اس کا رواج نہیں تھا ۔پتہ چلا کہ یہ سوغات لاری اڈا فتح جنگ سے ملتی ہے۔حلوائی سے چیبڑ کا حلوہ مانگا۔اس نے بلینک لک دی اس کو کچھ سمجھ نہ آیا ۔ اس پر چیبڑ کی ب کو ڈراپ کر کے سلیس اردو میں چیڑ کا حلوہ طلب کیا۔کمیونیکیشن گیپ ختم ہوا اور ہم نے من کی مراد پائی ۔ میرا خیال ہے کہ یہ چیڑ کالا چٹا پہاڑ سے آتی ہے ۔ آصف جہانگیر ہمارے اٹک کالج کے کلاس فیلو تھے ان کی تحقیق کے مطابق چیڑ کھیری مورت سے آتی ہے
روٹی سالن کو ہگری (Single) روٹی کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ حلوہ شریف کا اضافہ کریں تو اسے دوہری روٹی کہتے ہیں ۔وفات کے موقع پر گھروالوں کے لئے ہگری (Single) روٹی کا انتظام بھی نامناسب ہے۔۔اس میں حلوہ / سویٹ ڈش کا اس کو دوہری روٹی بنا دیتا ہے۔بلکہ ولیمہ بنا دیتا ہے۔یہ انتہائی
نازیبا عمل ہے۔ سوشل پریشر کو دفع کرتے ہوئے اس سے لازمی بچنا چاہیے ۔
شادی کے موقعہ پر سارے گاؤں کی روٹی گھر گھر پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ایک لمبا سا ہاف سرکل توا لوہ(Loh) کہلاتا تھا۔اس پر روٹیاں پکائی جاتی تھیں ۔ ترازو پر تول کر فی کس بندے پرتی 250 گرام حلوہ اور دو روٹیاں سجن دشمن ہر ایک کے بھجوائی جاتیں۔واپسی پر تقسیم کرنے والے رپورٹ دیتے فلاں گھر والوں نے روٹی موڑ دی ہے قبول نہیں کی ۔
سارے حلوے اللہ پاک کی نعمتیں ہیں۔ ان میں کون سا حلوہ سب سے زیادہ سوادی ہے اس کے بارے میں کچھ حضرات کا قول ہے کہ دوسرے کے گھر کا پکا ہوا حلوہ افضل ہے۔
ڈاکٹر صاحبان کی رائے کی تفصیل یہ ہے ۔
جب بابا جی کو شوگر ہو جاتی ہے تو اس کو کنٹرول کرنے کی فکر بچوں کو بابا جی سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ باباجی کو ہر وقت احساس ہوتا ہے کہ کیمرے کی نظر دیکھ رہی ہے۔ جس دن گھر میں حلوہ پکتا ہے اس دن کیمرے کی کارکردگی (Resolution)اور بڑھ جاتی ہے ۔بچا ہوا حلوہ فرج میں رکھ دیا جاتا ہے ۔رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو بابا جی پولا پولا اٹھ کر فرج کھولتے ہیں۔حلوہ نکال کر آٹھ دس چمچ چکھتے ہیں،یہ حلوہ دنیا کا سب سے سوادی اور مزیدار حلوہ ہوتا ہے آزمائش شرط ہے ۔
سلسلہ خوراکاں کاتیسرا مضمون
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔