روحانی حفظان صحت
لقمان حکیم سے ایک مقولہ منسوب ہے کہ: "بیماری جسم میں پیدا ہونے سے پہلے مریض کی روح میں جنم لیتی ہے۔” یہ حکیمانہ راز ہمیں صحت مند زندگی گزارنے کے لیئے جسم کی حفاظت کے علاوہ اپنی روحانی صحت کو برقرار رکھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ میرا یہ پختہ ماننا ہے کہ بیماری ہمارے جسم سے پہلے ہماری روح میں پیدا ہوتی ہے۔خون کے سفید جرثومے باہر سے جسم میں داخل ہو کر بیماریاں پیدا کرنے والے بیکٹریاز، وائرس اور فنگس وغیرہ کے خلاف لڑتے ہیں اور انہیں جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کر کے تباہ کر دیتے ہیں۔ جسم کے اس امیونٹی سسٹم کو طاقتور رکھنے کے لیئے فروٹ، سبزیاں اور ادویات کے ذریعے بحال رکھنے کی ہدایات کی جاتی ہیں۔ اس نظام کو مضبوط اور متوازن رکھنے کا دوسرا بینادی اور اہم ترین طریقہ روح کی صحت ہے جو اس کو برائی اور منفی خیالات سے پاکیزہ رکھ کر برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ اگر روح میں نقص اور عدم اعتدال پیدا ہو جائے تو اس کی مثال ایسے بچے کے زائیگوٹ یا کسی بیج کی مانند ہے جس میں خرابی پیدا ہو جائے اور اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس سے غیر صحت مند اور ناقص نسل پیدا ہونے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
زندگی کے ہر لطف کو آپ اسی صورت میں انجوائے کر سکتے ہیں جب آپ صحت مند ہیں ورنہ زندگی جتنی بھی خوبصورت ہو آپ صحت مند نہیں ہیں تو اس کی ہر نعمت آپکے لیئے بیکار ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا: "یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟”
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "صحت۔” پنجابی میں کہتے ہیں، "جان اے تے جہان اے”۔
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت اور منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لئے کی اتنی شاید پوری کائنات کو بنانے کے لئے کی ہو گی۔
ہمارے جسم کے اندر ایسے اربوں نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں مگر ہماری قوت مدافعت ہمارے جسم کے نظام کی ان ہلاکت خیزیوں کو کنٹرول کرتی ہے جس کا بنیادی تعلق ہمارے جسمانی نظام کے علاوہ ہماری روح سے ہے جس کی بنیاد پر ہم وجود میں آتے ہیں۔ یہ بیماری ہماری روح کے اندر "بلڈ ان” نہیں ہوتی ہیں مگر ہمارا بیالوجیکل جسم جینیٹکل اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر جب ہم تیز چلتے ہیں، جاگنگ کرتے ہیں یا تیز پیدل دوڑتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے، ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں، اور یہ تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں کے حملے سے بچ جاتا ہے۔
دنیا کا پہلا بائی پاس مئی سنہ 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی۔ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہو پاتا۔
مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون سنہ 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے۔
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔ یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا ہے کہ دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں، نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں۔ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے۔
ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری انگلی کٹ جائے، بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے۔ سائنس دان قدرت کی اس کاریگری پر حیران تھے کہ قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج معلوم ہوا ہے کہ جگر "عضو رئیس” ہے۔ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ممکن ہوا ہے۔ اب آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں۔ یہ قدرت کے چند ایسے "معجزے” ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے ہمارے اندر ایسی موزی بیماریوں کے خلاف ہماری ہی زندگی کی بنیادی محرک "روح” میں چھپا کر رکھے گئے ہیں جو ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں اور سونے کے دوران موت کی دہلیز پر جا پہنچتے ہیں۔ موت اور نیند کے درمیان ہمارے اعضاء کی ورکنگ اور شعور کا فرق ہے۔ ہماری اونگھ، نیند، گہری نیند، بے ہوشی اور موت، یہ پانچوں حالتیں ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہمارے اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ باقی ہوتا ہے۔ ہم روز صبح موت کی کی وادی میں جا کر واپس پلٹتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ ہماری صحت کا شمار دنیا کی ان چند بڑی اور بنیادی نعمتوں میں ہوتا ہے۔ جب تک ہماری صحت قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جونہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہیں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی نعمت ہے۔
ہم اگر کسی دن تنہا بیٹھ کر سوچیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاو’ں کی انگلیوں تک اپنی صحت کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم میں سے ہر شخص کھرب پتی ہے۔ ہماری پلکوں میں چند ٹشوز ہوتے ہیں۔ یہ ٹشوز ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں۔ اگر یہ ٹشوز جواب دے جاتے ہیں تو ہم اپنی پلکیں نہیں کھول سکتے ہیں۔ دنیا میں اس مرض کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ دنیا کے بہت سے امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض شکار ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں اربوں ڈالر دینے کے لیئے تیار ہیں۔ ہمارے کانوں میں کبوتر کے ایک آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے۔ یہ پارے کی مانند ایک لیکوڈ ہے۔ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں۔ اگر یہ ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے اور ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لئے کروڑوں ڈالر دینے کے لئے تیار ہیں۔ لوگ صحت مند گردے کے لئے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیئے تیار ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے۔ دل خریدنے کی چیز نہیں مگر اس کی قیمت بھی لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارہ پانے کے لیئے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔ گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے۔ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بندے کی چیخیں نکلوا دیتا ہے۔ آدھے سر کے درد نے ہزاروں لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ شوگر، کولیسٹرول اور
بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کی کماتی کرتی ہیں۔ آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو جائیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر بعض دفعہ آپ کو شفا نہیں ملے گی۔ منہ کی بدبو بظاہر ایک معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی تحفہ ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں کیونکہ ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ ہم روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں۔ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم بھی ہو جاتا ہے۔ ہم سیدھا چل سکتے ہیں، دوڑ لگا سکتے ہیں، جھک سکتے ہیں
اور ہمارا دل، دماغ، جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں۔ ہم آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، کانوں سے سن سکتے ہیں، ہاتھوں سے چھو سکتے ہیں، ناک سے سونگھ سکتے ہیں اور منہ سے چکھ سکتے ہیں تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے قرض دار ہیں۔ اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چایئے کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے.
اس کے باوجود ہم دنیا کے لالچ میں جھوٹ بولتے ہیں، دوسروں کو خوشیاں دینے کی بجائے انکا دل دکھاتے ہیں حرام کھاتے ہیں، لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اپنی روح کو پراگندہ کرتے ہیں۔
ہمارے خاکی جسم کی زندگی ہمارے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح کی وجہ سے ہے۔ ہم اگر صحت مند بھی ہوں، ہمارے پاس دنیا کی ہر نعمت ہو اور ہمارے پاس اربوں ڈالر ہی کیوں نہ ہوں ہماری روح دنیاوی آلائشوں سے آلودہ ہے تو ہم صحت مند نہیں بلکہ ہم بیمار ہیں۔ اپنی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی صحت پر بھی توجہ دیں، برائیوں سے بچیں، ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کریں اور آج عہد کریں کہ جسم کے ساتھ ساتھ اپنی روح کی پاکیزگی کا بھی خیال رکھنا ہے۔
Title Image by Pete Linforth from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔