چند اصول ارتقائے ذات کے
ہماری منزل مقصود یہ نہیں ہونی چایئے کہ ہم دوسروں سے برتر انسان بن جائیں، بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چایئے کہ ہم خود کو پہلے سے بہتر انسان بنا لیں۔
جب لوگ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے یا اپنی ذات کی تعمیر کا بلاوجہ دعوی کرتے ہیں، تو دراصل وہ خود کو بہتر بنانے والی توانائی کو بلاضرورت خرچ کرتے ہیں۔ اس سے ایک تو کچھ نیا سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کا جذبہ کم پڑ جاتا ہے یا پھر اس جانب ان کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ دوسرا ان کے اندر تفاخر اور غرور پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جو تعمیر ذات کے لیئے زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح سیکھنے کا دکھاوا سیکھنے کے عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ اس لیئے کوئی بھی آدمی خاموشی اور عاجزی کو اختیار کیئے بغیر پہلے سے زیادہ اچھا انسان نہیں بن سکتا یے۔ ہماری اصلاح کا تعلق ہمارے اندر کی ذات سے ہوتا ہے۔ لھذا ڈھنڈورا پیٹ کر ہم کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو سنوارنے کا سفر بخوبی طے کر سکتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو صرف اپنے شخصی ارتقاء پر توجہ دینی چایئے۔ دوسروں کے لیئے درس و تدریس کا کام کرنا اور ان کی اصلاح کی ذمہ داری اٹھانے کے کام دو الگ الگ سمتیں ہیں۔ اگر ہم کچھ سیکھ رہے ہیں اور ہمارے اندر بہتری آ رہی ہے تو ہمارے اعمال یہ ثابت کرنے اور انہیں تحریک دینے کے لیئے کافی ہیں کہ اس سے دوسرے انسانوں کے اندر بھی بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی لوگ جتنا آپ کے تعمیری اور مثبت اعمال اور سیرت و کردار سے متاثر ہوتے ہیں وہ اتنا آپ کی تبلیغ سے نہیں ہو سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ علم و آگاہی، تعلیم و تربیت اور تبلیغ وغیرہ کے سب سے زیادہ حق دار ہم خود ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو وعظ کرتے ہیں اور اس کا ہم خود عملی نمونہ پیش نہیں کرتے ہیں تو اس کے دوسروں پر کوئی مثبت اور تعمیری اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایسی کسی صورت میں دوسروں پر الٹا اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس میں نہ صرف ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ اس سے دوسروں کے ذہن میں ہمارا شخصی تصور بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سمندر جتنا گہرا ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ خاموش ہوتا ہے حالانکہ اس کے نیچے ایک ہنگامہ خیز قسم کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ خود کو سنوارنے کا بہترین عملی معیار اور طریقہ بھی یہی ہے کہ کسی سے اپنا مقابلہ یا موازنہ ہرگز نہ کیا جائے اور دھیرے دھیرے مگر خاموشی کے ساتھ اپنی ہی شخصی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔
ہر ایک انسان قدرت کی ایک انمول اور بے مثل تخلیق ہے۔ کسی کا کسی سے موازنہ یا مقابلہ کرنا ان کی ذات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ کو دوسروں کی تعمیر کرنا بھی مقصود ہو اور جو کسی حد تک ہونی بھی چایئے تو اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنی سیرت و کردار کا اعلی عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ جتنے ہمارے اعمال دوسروں کو متاثر کرتے ہیں اتنی ہماری نصیحتیں نہیں کر سکتی ہیں۔ ہمیں، "اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت” قسم کا انسان نہیں بننا چایئے۔ اس قسم کا رویہ انسان کے اندر سطحیت اور کھوکھلا پن پیدا کرتا ہے۔ اگر آپ کے اردگرد کے دوسرے لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر کچھ سیکھ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے مگر اس پر ہمیں زیادہ فخر کرنے اور غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے شکر بجا لانا چایئے، کیونکہ احساس تشکر انسانی ذات کی بہت بڑی طاقت ہے جو انسان کے اندر عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے۔بانسان اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے سیرت و کردار کو سنوارے یا اس پر کوئی دباوُ ڈالنے کی کوشش کرے۔ "دین میں جبر نہیں ہے۔” ہر انسان اسی صورت میں بہتر طور پر سیکھ سکتا ہے جب اسے سوچنے کی آزادی ہو اور وہ اپنے حصے کا کام کسی دباو’ کے بغیر خود کرے۔ ہم جن کو سیکھانے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، ممکن ہے کہ خدا کی نظر میں اپنی کچھ خوبیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہتر انسان ہوں۔ دوسروں کی ذات سے ہم اگر بہتر بھی ہوں تو جو ان کے پاس ہوتا ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہوتا ہے۔ اس لیئے کوشش یہ کرنی چایئے کہ، "کچھ لو اور کچھ دو” کی بنیاد پر ایک دوسرے سے فطری انداز میں سیکھنے کی کی جدوجہد کرنی چایئے۔
ہمارا عقیدہ جیسا بھی ہو لوگ ہمارے کردار سے متاثر ہوتے ہیں، اور ہمارا کردار وہی ہوتا ہے جو کچھ ہم سوچتے ہیں۔ ایک حدیث شریف ﷺ کا مفہوم ہے کہ مومن کا آنے والا کل اس کے ہر گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوتا ہے یعنی ہر انسان کو اپنی شخصیت سازی کے لیئے روزانہ کی بنیاد پر کچھ نئی چیزیں سیکھنا پڑتی ہیں۔ ہمیں چایئے کہ بہتر انسان بننے کے لیئے ہم روزانہ کچھ نیا سیکھنے پر خود کو مجبور کریں۔
بے شک انسان خطا کا پتلا ہے اور غلطیاں کرنا اس کی فطرت میں ہے مگر جو انسان غلطیوں سے سیکھنے پر مائل ہو جاتا ہے وہ اپنی غلطیوں کو ہی اپنی بہتری کے لیئے استعمال کرتا ہے اور خود کو ہر آئے دن مضبوط سے مضبوط تر کر لیتا ہے۔ سیکھنے پر مائل آدمی کم بولتا ہے مگر سنتا زیادہ ہے، اور وہ مشاہدہ زیادہ کرتا ہے مگر ردعمل کم ظاہر کرتا ہے۔ ایک بار کوئی خود کو سیکھنے کے لیئے تیار کر لے تو وہ علم اور تجربے کے قطرے قطرے کو بھی جذب کرے تو وہ سمندر بننے کے راستے پر چڑھ جاتا ہے۔ زندگی میں زیادہ تجربے، دانش اور علم و بصیرت کا حصول ہی انسان کو بہتر سے بہترین بناتا ہے۔ جس طرح امیر بننے کے لیئے پہلے ذہنی طور پر امیر بننا پڑتا ہے اسی طرح وافر مقدار میں علم کا حصول تبھی ممکن ہوتا ہے جب ہم سیکھنے اور بہترین انسان بننے کے لیئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے ہیں۔
ہم اگر اپنی ذہنی صحت کو ترجیح بنا لیں تو ہمارے سیکھنے، تجربہ حاصل کرنے اور اپنی شخصی تعمیر کرنے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں اعلی، مثبت اور تعمیری خیالات اسی صورت میں آتے ہیں جب ہم دماغ سے منفی اور غیر تعمیری خیالات کو نکال کر اس میں خالی جگہ پیدا کرتے ہیں۔ ہم اگر اپنے صحن ذہن میں پھولوں بھرا خوشبودار باغ اگائیں گے تو ہمیں خوبصورت تتلیوں کو پکڑنے کے لیئے باہر نہیں جانا پڑے گا، وہ رس چوسنے کے لیئے خودبخود ہمارے پاس آئیں گی۔
شخصی تعمیر کے لیئے اساتذہ، کتب اور مطالعہ و ماحول ضرور اثرانداز ہوتے ہیں مگر روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت کے لیئے تنہائی میں رہنا اور غوروفکر کرنے کو معمول بنا لیا جائے تو سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کے عمل کو مہمیز لگ جاتی یے۔ لھذا تنہا رہنے سے خوفزدہ مت ہوں کیونکہ بہتر انسان بننے کے مقاصد کا حصول ذاتی طور پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
Title Image by Holger Feulner from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |