”اعترافِ فن” پرکچھ تاثرات

”اعترافِ فن” پرکچھ تاثرات

تحریر : ظہیر گیلانی ، اسلام آباد

یہ میری خوش بختی ہے کہ جناب مقبول ذکی مقبول صاحب نے اپنی کتاب ” اعترافِ فن ” پر تاثرات کے اظہار کی مجھے دعوت دی ۔ یہ مقبول ذکی صاحب کی پانچویں کتاب ہے ۔
ان کی پہلی کتاب ٫٫ سجدہ ،،2017 ء میں آئی تھی جس کا موضوع سرائیکی اسلامی شاعری تھا ۔ دوسری کتاب ” منتہائے فکر ” 2020 ء میں شائع ہوئی جو اردو مجموعہ سلام پر مشتمل تھی ۔ تیسری کتاب ” سنہرے لوگ” 2023 ء میں آئی جس میں ذکی صاحب کے نامور ادبی شخصیات کے ساتھ کیے گئے انٹرویوز شامل کئے گئے تھے ۔ چوتھی کتاب بھی معروف ادیبوں کے مصاحبوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے سنہ 2023 ء میں منظر عام پر آگئی تھی ۔
زیر نظر کتاب ”اعترافِ فن ” میانوالی کے مقبولِ خاص و عام ادیب ، شاعر اور دانشور جناب عاصم بخاری صاحب کی شخصیت و فن کے بارے میں ہے ۔ اس طرح مجھے ایک ہی وقت میں دو بڑی شخصیات کے بارے میں جاننے اور لکھنے کا موقع ملا ۔ کتاب کو جستہ جستہ پڑھنا شروع کیا تو ایک گھمبیر مسئلے نے آن لیا ۔ کتاب تو عاصم بخاری صاحب کے بارے میں ہے لیکن جناب مقبول ذکی صاحب کی تحریر کی روانی ، برجستگی اور شائستگی اتنی متاثر کن ہے کہ قاری بھول جاتا ہے کہ بات بخاری صاحب کے بارے میں کرے یا مقبول ذکی کی تحریر کے بارے میں ۔ دونوں شخصیتوں کے افکار نے جمع ہو کر نور علیٰ نور کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ ذکی صاحب کا اصرار ہے اور صحیح ہے کہ عاصم بخاری صاحب اور کتاب کے بارے میں ہی بات کرنی ہے تو میں یہی کوشش کروں گا ۔
پروفیسر عاصم بخاری صاحب کی شخصیت کے بارے میں مقبول ذکی اس کتاب” اعترافِ فن” میں لکھتے ہیں کہ خوش مزاج ، خوش اخلاق ، خوش گفتار اور خوش خط انسان ہیں ۔ بقول ان کے” خوش کے زیادہ تر سابقے ان کی شخصیت پر فائق آتے ہیں ۔(ص 9) ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ”عاصم بخاری بیدار مغز ، باشعور اور خبردار قلم کار ہیں ۔ وقت کے تقاضوں اور نزاکتوں سے بخوبی آگاہ عاصم بخاری کو نظم و نثر دونوں میں ممتاز و منفرد مقام عطا کرنے والی ان کی اختصار پسندی ہے جو شاعری میں ان کے ”فردیات عاصم بخاری” اور ”ریزہ ریزہ” کا روپ دھار لیتی ہے ۔ اور نثر میں مختصر افسانہ اور مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔” (ص 28)
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں مقبول ذکی عاصم بخاری صاحب کا ہی ایک شعر لاتے ہیں

؎ عاصم اس اختصار پسندی کے دور میں
ہو مختصر نویسی ہی، تیرا شعار بھی

(عاصم بخاری)

”اعترافِ فن” پرکچھ تاثرات

پروفیسر عاصم بخاری صاحب کے تعارف اور خوبصورت خاکہ کے بعد عاصم بخاری صاحب کے اعزازات کی لمبی فہرست ہے جو کم از کم بارہ (12) ایوارڈ ہیں۔چوتھا باب بخاری صاحب کی حمد و نعت گوئی کے متعلق ہے۔ اس باب میں مقبول ذکی صاحب اردو شاعری میں حمد و نعت کی روایت کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں اور پھر پروفیسر صاحب کی حمد و نعت گوئی کا ایک قدرے گہرا جائزہ قلم بند کرتے ہیں ۔ ذکی صاحب کی باریک بین نگاہ عاصم بخاری صاحب کی حمد و نعت میں سے کئی اہم نکات قاری کے لیے اجاگر کرتی ہے ۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بخاری صاحب کی حمد بھی نعت اور نعت بھی حمد ہے ۔
نعت ہر اک ہے حمد یہ میری (عاصم بخاری)
اور
نام تیرے جیب ، کا لیکر
ایک نئی بات ، لکھ رہا ہوں میں
گرچہ شاعر علیحدہ کہتے ہیں
حمد میں نعت لکھ رہا ہوں میں
(عاصم بخاری)
کتاب ”اعترافِ فن” کا پانچواں باب پروفیسر عاصم بخاری کی رثائی شاعری کے متعلق ہے ۔ کربلا ، امام حسین علیہ السّلام اور سادات کے بارے میں بخاری صاحب کے بہت اثر انگیز اشعار کی مثالیں دی گئی ہیں ۔ مثلاً
؎معرفت کی آنکھ سے دیکھو اگر
حق کا ، سچ کا ، راستہ ہے کربلا
اور
؎گھر کے لٹنے کے یہ حالات بتا سکتے ہیں
غم کسے کہتے ہیں سادات بتا سکتے ہیں
چھٹا باب ”پروفیسر عاصم بخاری: نظم و نثر ایک جائزہ” ہے ۔ مقبول ذکی کے مطابق پروفیسر عاصم بخاری ”نظم و نثر دونوں میں خوب شاعرانہ و ادیبانہ حربے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مغرب کی اندھی تقلید ، فیشن اور مغربی تہذیب کی اندھا دھند پیروی پر صرف کڑھتے ہی نہیں بلکہ موثر انداز میں قلمی جہاد کرتے ہیں۔”(ص 26)
”ان(عاصم بخاری) کا تنقیدی اور نثری اسلوب سادہ بھی ہے اور طنزیہ و مزاحیہ بھی۔ مغربی ثقافتی یلغار سے ہمہ وقت ہوشیار و خبردار کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عصری حسیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔۔۔ ان کے اشعار انتہائی سادگی کے حامل اور سہل ممتنع کی بہترین مثال ہیں ۔”(ص 27)
؎ لفظی تصویر دور اپنے کی
پیش لفظوں کے روپ میں کر دی
(عاصم بخاری)
؎ بوجھ دل کا اتارتا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں شاعری جس کو
(عاصم بخاری)
” اعترافِ فن” کا ساتواں باب ہے ”عاصم بخاری کی شاعری میں مقامیت” اس باب کا افتتاح ہی بخاری صاحب کے اس شعر سے ہوتا ہے:
؎ تیرے اشعار میں عاصم بخاری
میانوالی کی ساری ہے روایت
(عاصم بخاری)
عاصم بخاری میانوالی کی روایات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
؎ہوا کرتی ہیں عاصم، انتہا پر
ہماری دوستی بھی، دشمنی بھی
(عاصم بخاری)
میانوالی کی سادگی اور قدرتی خوبصورتی پر شہری زندگی کے اثرات سے عام عاصم بخاری نالاں نظر آتے ہیں۔ اپنے گاؤں کے بارے میں کہتے ہیں:
؎ شہری چادر ہے اوڑھ لی اس نے
گاؤں ، گاؤں ، نہیں رہا اپنا
”پروفیسر عاصم بخاری کی عورت کے موضوع پر شاعری”،”اعتراف ِفن” کا آٹھواں باب ہے۔ اس باب میں بخاری صاحب کے صنفِ نازک کے بارے میں نازک نازک اشعار کی نزاکت بیان کی گئی ہے ۔ چند مثالیں:
؎ عورت کو ہی عورت کا نمائندہ بناؤ
عورت ہی سمجھ سکتی ہے عورت کے مسائل
(عاصم بخاری)
؎ یہاں عورت سے ”موٹروے” سابرتاؤ نہیں ہوتا
میانوالی کی مٹی میں وفا بھی ہے حیا بھی ہے
(عاصم بخاری)
اس کتاب کے نویں باب میں مقبول ذکی مقبول صاحب نے ”پروفیسر عاصم بخاری صاحب کی شاعری کے اصلاحی پہلو” پر بات کی ہے۔ مقبول صاحب نے بہت صحیح لکھا ہے کہ” شاعر ، ادیب کا منصب اور ادب میں ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ سماج کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے لحاظ سے دریا اور نہر کے کناروں کا کام کرے۔ (ص 47)
مزید لکھتے ہیں کہ ”عاصم بخاری کا فکر و فن شعورکی پختگی پر ہے۔ ان کا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے۔ وہ فنا اور بقا پر غور کرتا دکھائی دیتا ہے۔زندگی کے مقصد پر سوچ بچار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مادیت یعنی پیسے کا نظریہ انہیں حیران ہی نہیں پریشان بھی کرتا ہے ۔”(ص 48) اس موقع پر مقبول صاحب نے پروفیسر عاصم بخاری کے ایک قطعہ کی مثال دی ہے:
بنا کر خود کو دولت کا پجاری
ہر اک حد سے گزرتے ہی رہے ہم

الف انسانیت کی تھی ضرورت
مگر کچھ اور ہی پڑھتے رہے ہم
(عاصم بخاری)
جناب عاصم بخاری نے اپنے بارے میں اور اپنی شعری افادیت کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں جو شعر کہا اور مقبول ذکی نے اس کتاب میں اس کا ذکر کیا وہ ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ کہتے ہیں:
؎ شعر مقصد کے تحت کہتا ہوں
وقت کا میں ضیاع نہیں کرتا
دسواں باب بعنوان ”باکمال شاعر و ادیب” مقبول ذکی مقبول صاحب کی تنقید نگاری کی اعلیٰ مثال ہے ۔ اس باب میں چار شعری مجموعوں ، دو نثری مجموعوں اور چار تحقیقی مضامین کے مجموعوں کا اجمالی ذکر اور فکری و فنی محاسن پر ناقدانہ رائے پیش کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا کے علاوہ اس کتاب میں ”پروفیسر عاصم بخاری کی شاعری میں توصیف جمال کا پہلو” اور ”عصری شعور و اصلاح” پر الگ الگ باب ہیں۔ ایک باب ان کی ”واقعاتی شاعری” پر بھی ہے۔ آخری باب میں” کرچی کرچی” کے عنوان سے عاصم بخاری صاحب کی ”منفرد انداز ”کی شاعری کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان کرچیوں کو دیکھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے بڑے شاعر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں مقبول ذکی مقبول نے بھکر جیسے چھوٹے شہر میں بیٹھ کر میانوالی کے ایک عظیم ادبی سپوت پر کتاب ترتیب دے کر بہت بڑی ادبی خدمت سر انجام دی ہے۔ اس کتاب سے پاکستانی ادب کے بارے میں یہ تاثر زائل ہو جانا چاہیے کہ اچھا ادب شاید بڑے شہروں میں رہ کر ہی تخلیق کیا جا سکتا ہے یا پھر بڑے ادیبوں کی کتابیں ہی شائع ہو سکتی ہیں۔ درست ہے کہ چھوٹے شہروں اور قصبوں کے لوگوں کو سہولیات اور مواقع اتنے نہیں ملتے جتنے بڑے شہروں کے ادیبوں کو ملتے ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ جہاں تخلیقی قوت موجود ہو وہاں سے افکار تازہ کی نمود اپنا راستہ پتھروں اور صحراہوں کے بیچ بھی بنا لیتی ہے۔ پھول کو کھلنے کے لیے کسی بڑے چمن اور وسیع و عریض کیاریوں کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ بیابانوں میں بھی کھل اٹھتے ہیں۔ جہاں پھول کھلتے ہیں وہاں ان کی خوشبو ؤں کی مہک بھی پھیلتی ہے۔ پھولوں کی خوشبو کسی ایک کیاری تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے چمن میں پھیل جاتی ہے۔ میانوالی کی مردم خیز زمین میں پروفیسر عاصم بخاری صاحب جیسے پھول کھلتے ہی رہتے ہیں اور مقبول ذکی جیسے بھنورے اس خوشبو کو چہار دانگ عالم میں پھیلانے کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کے شہد کی چاشنی کو پورے ملک میں متعارف کراتے ہیں۔ پھر خوشبو کے، شہد کیاور فطرتی حسن کے متوالے ان پھولوں کا سراغ لگاتے ہوئے ان کے دَر پر حاضری دینے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ حاضری غائبانہ عقیدت بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ”اعترافِ فن” کو پڑھ کر مجھے مقبول ذکی مقبول اور پروفیسر عاصم بخاری سے ایک گونا عقیدت ہو گئی ہے۔
***

 ظہیر گیلانی

 ظہیر گیلانی

اسلام آباد

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کانگو وائرس بیماری سے بچاؤ کے اقدامات

پیر نومبر 20 , 2023
کانگو وائرس بیماری سے بچاؤ کے لیئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ھے
کانگو وائرس بیماری سے بچاؤ کے اقدامات

مزید دلچسپ تحریریں