"صراطِ مودت” کے پھول

نیرنگیء سخن ،خیالات کے دھنک رنگ اور انابیبِ شعری جب مزین ہو کر سید مبارک علی شمسی کے موجِ ادراک پر برستے ہیں تو موجِ سخن ایک درخشاں صورت لے کر چشمِ امواجِ بقا، سندِ امانت، غنچہء رازِ وحدت،جوہرِ فردِ عزت،مخزنِ اسرارِ ربانی حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کی صورت اختیار کر کے "صراط مودت "کی رخشاں صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ نعت اللہ ستار العیوب کی ایک خاص عنایت کا نام ہے جو مخصوص افراد کے فکرو شعور پر الہام کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور یہ الہام  الفاظ کی گلرنگ برساتیں بن کر قارئین کے فہم و ادراک میں اضافہ کرتے ہیں۔

صراط مودت میں سید مبارک علی شمسی کے عشقِ مصطفیٰؐ کے جام جگہ جگہ پر چھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں آپ نثر نگار بھی ہیں شاعر بھی اور ایک معروف صحافی بھی ہیں جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں سادات کا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے سادات سے گہری محبت رکھتے ہیں اور سادات کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

sirat e mawaddat

"صراطِ مودت” میں اللہ رب العزت کی حمد میں کائنات کی ضیا پاشیاں، رنگ و نور اور قرینہء خلق دیکھتے ہیں تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں :۔

منحرف ہو نہیں سکتا کوئی شمسی اس سے

مہر و ماہ ایسے قرینے سے سجائے تُو نے

 منتہائے جمال، منبعء خوبی و کمال حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سیرت کا نگینہ جب دل کے صدف میں اتارتے ہیں تو غم گسارِ دل فگاراں آقاؐ پاک کی حمد و ثنا اور اللہ ستارالعیوب کے فرمانِ ذیشان دیکھ کر دونوں سے حسنِ شعر کشید کرتے ہیں اور کہتے ہیں  :۔

حامد بھی ہے اور محمود ہے

اے رسولِؐ خدا تیری کیا بات ہے

 آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے عشق ہو اور مدینے سے نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے جن خاک کے ذروں پر مبارک نعلین پڑے وہ نگیں ہو گئے ۔جس خاکِ طیبہ پر آپ تشریف فرما ہوئے وہ خاک خاک نہ رہی خاکِ شفا بن گئی

جس شجر کی طرف آپ نے نظر کرم فرمائی وہ شجر پھلوں سے سرفراز ہوا مدینے کے اطراف آپ کے خوشبو دار سانسوں سے عنبر ہو گئے آپؐ کی برکات اب بھی مدینے میں قائم دائم ہیں۔ شاعر کی فکر رسا ان لطافتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اس کی فرخندہ بخت نظریں دیکھتی ہیں اوجِ فکر حسن مدینہ کو ایسے بیان کرتی ہے :۔

سنگ ریزے بھی مدینے کے لگیں

مجھ کو جنت کے نگیں،تجھ پر سلام

جب ناعت مونس آدم، قبلہء عالم، کعبہءاعظم، جان مجسم، نور مجسم،   انجمن لیل و نہار، شافع یوم قرار، آفتاب نو بہار، سرور عالم فخرِ دو عالم، مرسلِ خاتم، خیرِ مجسم، صدرِ مکرم، نورِ مقدم، نیرِ اعظم، مرکزِ عالم، وارثِ زمزم، کی ثنا لکھتا ہے تو آپ کے صحابہؓ پر نظر پڑتی ہے اس کو آقا پاک کی تربیت پر فخر محسوس ہوتا ہے اس فخر کے احساس سے قلب و نظر میں محبت کے پھول  قلم کی نوک چومتے ہیں تو ایسے گلرنگ اشعار موتیوں کی طرح کاغذ کے سینے پر بکھرتے چلے جاتے ہیں:۔

آقاؐ تو آقاؐ ہیں کیا بات کروں ان کی

آقا کے صحابہ کا کردار مثالی ہے

مدینے کی فضاوں میں آقاؐ پاک کی خوشبو  آتی ہے جس کو عاشق اب بھی محسوس کرتے ہیں غارِ حرا ہو یا غارِ ثور جہاں بھی آقا پاک تشریف لے گئے وہاں پر جانا مسلمانوں کے لیے خیرو برکت کا باعث ہے یہی احساس مدینے کی محبت میں اضافہ کرتا ہے اور شاعر فرطِ جزبات سے کہہ اٹھتا ہے:۔

دل جو طیبہ کا مکیں ہو جائے

زندگی پھر تو حسیں ہو جائے

رخِ انورِ مصطفیٰؐ کی تابانیوں کو جس نے بھی دیکھا ہے وہ خوش نصیب ہے حضرت یوسفؑ کے حسن و جمال پر زنانِ مصر نے اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے یہاں تو عاشقان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر تک کٹوا دیے تھے اور اب بھی عشقِ مصطفیٰؐ میں لوگ جان دینا اپنی سعادت سمجھتے ہیں سید مبارک علی شمسی بھی اسی حضوری کیفیت کا ذکر کر کے یوں اظہارِ عشق کرتے ہیں:۔

ہو جان فدا آپ پہ اے سیّدِ لولاکؐ

ہے دل کی صدا آپ پہ اے سیّدِ لولاکؐ

” والضحیٰ” کی تابانیوں سے گلوں کا شگفتہ پن، کلیوں کا بانکپن ،آفتاب سے پھوٹی ہوئی کرن، ماہتاب کی پرنور ضیا، بلبل کا مترنم غل ، کوئل کی سریلی ادا ، حسین کہکشاوں کی ضیا، دلآویز جھرنوں کا ترنم، گلرنگ برساتوں کا ریشمی تبسم اور ہر دلربا کی ادائے حُسن و رعنائی کی خیرات مانگتی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی صورت قرآن میں بیاں کر دی ہے آپ کی سیرت اور صورت دونوں قرآن میں ہیں حُسنِ محمدؐ کی قسمیں رب کھا کر نعت کہتا ہے ۔شاہ جی بھی خوش قسمت ہیں جو نعتیہ دیوان رکھتے ہیں اور حضورؐ کا حسن و جمال قرآن کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں :۔

کس طور میرے آقاؐ ہیں اللہ کو پیارے

قرآن میں ہم رب کی قسم دیکھ رہے ہیں

آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اخلاقِ حسنہ سے لوگوں کے دل جیت لیے یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھا غریبوں، مسکینوں اور بے آسرا افراد کو سہارا دیا اور ان کی اخلاقی و معاشی مدد کی۔ آپ کے فضائل،خصائل دشمنوں نے بھی تسلیم کیے اور آپ کی دیانت اور صداقت کے گرویدہ ہو گئے جس کا خوب صورت اظہار اس شعر میں ملاحظہ فرمائیے:۔

اعتراف دشمنوں  کو  ہے

ایسے خوش خصال ہیں حضورؐ

درود و سلام کے نذرانے، نعت مصطفیٰؐ کی حلاوتیں زندگی میں رنگ بھر دیتی ہیں کیونکہ ذکر مصطفیٰؐ اللہ جل شانہ کو بھی پسند ہے اسی لیے قرآن میں اللہ رب العزت نے ” ورفعنا لک ذکرک” کی سندِ مبین عطا کر کے پوری انسانیت کو بتا دیا کہ اس ذکر کی بلندیاں اور رفعتیں صرف اللہ ہی جانتا ہے اور اجر بھی وہی دے گا سرکار کا ذکر دلوں کو جوڑتا ہے مدحت سننے سے آپؐ کی سیرت سے آشنائی ہوتی ہے اور ذاکر ثواب کی ان گنت تعداد سے نوازا جاتا ہے "صراط مودت ” میں شاعر کا یہ خوب صورت شعر ان کے اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار ہے  ملاحظہ کیجیے :۔

چھڑے نہ سازِ دل پر ذکرِ احمدؐ

تو ایسی صبح  نہ کوئی شام آئے

زمانے کو عشقِ سکونِ درد منداں ،غمسازِ غریباں، نگاہِ بے نگاہاں

حسنِ بیکراں ،انیس بے کساں، راحتِ قلب و جسم جاں، راحتِ رفتگاں،چارہ گرِ آزردگاں  حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ہی شفاعت نصیب ہو گی اور پروانہ ء نجات ملے گا اس لیے اب شاہ گدا سب آپ کے درِ اقدس پر ہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ گناہگاروں کی آسِ شفاعت حقیقی ہے جو مقامِ محمود پر ہونی ہے اسی خیال کو شعر سے یوں رعنائی دیتے ہیں :۔

آپؐ کے در پر ہی جھکتے ہیں سبھی شاہ و گدا

آپؐ کے در سے ہی ملتی ہے زمانے کو اماں

نعت کی حُسنِ گفتگو اُس وقت ہی مکمل ہوتی ہے جب وہ معراجِ مصطفیٰؐ کا ذکر کرتا ہے ۔شاعری کی زینت نعت ہے اور نعت کی زینت معراجِ مصطفیٰؐ ہے کیونکہ آپؐ دنیائے خدا کے واحد انسان ہیں جو عرش پر تشریف لے گئے اور واپس تشریف لے آئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آسمان کی طرف اٹھایا گیا لیکن ان کا سفر الگ نوعیت کا ہے آپؐ کو دیدار نورِ خدا کی سعادت سے نوازا گیا اور آپ سدرہ سے آگے تک تشریف لے گئے یعنی آپ کی رسائی قاب و قوسین تک تھی اسی خوب صورت سفر کو شاہ جی مخفی الفاظ سے یوں زیبِ قلم کرتے ہیں:۔

عظمتوں کی حد ہوئی شک ہی نہیں اس بات پر

عرش تک جن کی رسا وہ آپ ہیں بس آپ ہیں

شق القمر کا واقعہ پوری دنیا نے دیکھا ہے جس کا انکار آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ہے  حضورؐ کا یہ معجزہ زمین سے ہٹ کر الگ تھلگ تھا جس کو کتنی خوب صورتی سے شاہ جی نے صنعت تلمیح کا استعمال کرتے ہوئے بیاں کیا ہے :۔

اک اشارے سے ہوا ہے معجزہ شق القمر

کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے یہ شانِ مصطفیٰؐ

عشقِ رسولؐ کے دھنک رنگ نصیب والوں کو ہی میسر ہوتے ہیں صورتِ صبحِ درخشاں ایسے انسان کائنات کا حسن ہوتے ہیں زندگی انہی لوگوں کی وجہ سے قائم ہوتی ہے لیکن عشقِ رسولؐ کی دولت کو چھپایا جاتا ہے کیونکہ یہ عاجزی سے پنپتا ہے فخر اور تکبر اس کو ماند کر دیتے ہیں۔ شاعر کی فکری نظافت کے رنگ اس شعر میں ملاحظہ فرمائیے :۔

جو عشقِ آقا ہے طاہر سا اک نگینہ ہے

بڑا سنبھال کے رکھنا ہے اس نگینے کو

ملائک کی در سرکار پر آمد ہمارے لیے تسکین روح کا باعث ہے جس کو بیاں کر کے ہم اپنے آقاؐ شاہِ جناں،جانِ جاناں،قبلہء زہراں، کعبہءقدسیاں، ہمدمِ نوحؑ، رہبرِ خضرؑ، ہادی ء عیسیٰؑ، عفتِ مریمؑ، حسنِ مجرد، دولتِ سرمد، ساقی ء کوثر، شافع ء محشر، روحِ مصور، مرسل داور سے اپنے عشق و وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں شاعر بھی اپنی عقیدتوں کا سفر اسی حقیقت کے سفینے پر طے کرتا ہے شاعر کا مودت بھرا اظہاریہ اس شعر میں دیکھیے :۔

دروازہء محبوبِ خدا ایسا ہے اک در

جس در پہ میں قدسی بھی گدا دیکھ رہا ہوں

اہل بیت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال سفینہ ء نوح علیہ السلام کی مانند ہے جو بیٹھ گیا بچ گیا اور جو اس سفینے پر نہ بیٹھا وہ عذابِ الٰہی میں غرقاب ہوا۔ اہلِ بیت رسولؐ کے طفیل خطائیں معاف ہوتی ہیں فطرس فرشتے کی سزا حضرت حسینؑ کے جھولے  سے مس کرنے سے ختم ہو گئی تھی جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حسنینؑ کریمین کے صدقے خطائیں معاف ہوتی ہیں اور بلائیں ٹلتی ہیں سید مبارک علی شمسی بھی اپنی امیدیں حسنینؑ کریمین سے لگائے بیٹھے ہیں اُن کے حسنِ تخیل میں اظہارِ دعا دیکھیے :۔

حسنینؑ کے صدقے، ہوں میری معاف خطائیں

سامانِ توکل لیے نکلا ہوں میں گھر سے

تبصرہ طوالت اختیار کر رہا ہے آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ پاک شاہ جی کے علم و عمل میں وسعت عطا فرمائے۔آمین

حبدار قائم

سیّد حبدار قائم

آف اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ھے

منگل مئی 4 , 2021
علامہ اقبال نے 1929 میں ٹیپو سلطان کی قبر پر حاضری دی , اور ایک گھنٹے تک تنہا بیٹھے روتے رہے اور اور فارسی میں شاہکار نظم لکھی
شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ھے

مزید دلچسپ تحریریں