سرائیکی شاعرہ ملکہ غزل کی نظم "میرے رب” کا فنی و فکری مطالعہ
سرائیکی شاعرہ ملکہ غزل کی نظم، "میرے رب” انسانی روابط کی پیچیدہ تعلقات کا احاطہ کرتی ہے، جس میں رشتوں کی عارضی نوعیت اور بندھنوں پر وقت کے اثرات کی موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنی شاعری میں ملکہ غزل نے زندگی کے سفر کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، نظم میں دوستی کے موضوعات، بدلتے ہوئے حالات، اور انسانی کمزوری کا حتمی احساس کو اجاگر کیا گیا ہے۔
نظم کا مرکزی موضوع رشتوں کی عدم استحکام اور وقت کی تبدیلی کی طاقت کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔ نظم افراد کے درمیان بدلتی ہوئی حرکیات، خوشی کی عارضی نوعیت، اور گہرے خالی پن کی عکاسی کرتی ہے۔
نظم ایک منظم اسلوب کی پیروی کرتی ہے، جو زندگی کے مختلف مراحل میں رشتوں کے ارتقاء کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کا آغاز باہم جڑے ہوئے قبائل اور قافلوں کی تصویر کشی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں اتحاد اور مشترکہ مفادات پر زور دیا جاتا ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ جوں جوں نظم آگے بڑھتی ہے، نظم وقت کی بدلتی ہواؤں سے گزرتی ہے، جو کنکشن کے ناگزیر زوال اور افراد کی بدلی ہوئی حالتوں کی عکاسی کرتی ہے۔
شاعرہ اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے طاقتور ادبی آلات استعمال کرتی ہے۔ استعارے، جیسے "درد کے سمندر پر لہریں” اور "غم کی چادر کے نیچے ٹوٹا ہوا وجود”، واضح منظر کشی کو جنم دیتے ہیں، جب کہ "میرے رب” کے جملے کی تکرار بنیادی روحانی اور وجودی جستجو پر زور دیتے ہوئے ایک پُرجوش اپیل کا کام کرتی ہے۔
شاعرہ وقت کے گزرنے کے نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، وہ یہ بتاتی ہیں کہ ان کے اشعار کس طرح زندگی کے حقیقی جوہر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اشعار دنیاوی وابستگیوں کی عارضی نوعیت پر روشنی ڈالتی ہیں اور ایک حقیقت کو پیش کرتی ہیں جہاں تعلقات، دوستی اور حالات ناگزیر تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظم میں واضح منظر کشی اور جذباتی زبان کا استعمال قارئین کو نظم میں بیان کردہ جدوجہد اور جذبات کے ساتھ ہمدردی پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے۔
شاعری کے بعد کے حصے میں شاعرہ اپنی نظم کے ذریعے انسانی مصائب اور تنہائی کی گہرائیوں میں جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جس میں کسی فرد کے تعلق کے گہرے نقصان سے دوچار ہونے کا ایک دلخراش منظر پیش کیا گیا ہے۔ داستان استعفیٰ اور قبولیت کے احساس کے ساتھ سامنے آتی ہے، جس کا اختتام روحانی بیداری میں ہوتا ہے جہاں مادی اثاثے اور دنیاوی وابستگی اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نظم "میرے رب” انسانی تجربے کا ایک گہرا مطالعہ ہے، جو قارئین کو زندگی کی عارضی نوعیت، رشتوں کی ابھرتی ہوئی حرکیات، اور وقتی چیلنجوں کے مقابلے میں معنی اور سکون کی حتمی تلاش پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ملکہ غزل کی آزاد نظم پیش خدمت ہے۔
*
"میرا رب” (آزاد نظم)
*
وجود کے ہر حصے سے لپٹی
پڑی ہیں رشتوں کی کئی زنجیریں
دوست و احباب کے کئے قبیلے
ساتھ رہتے ہیں
کئے قافلے ساتھ چلتے ہیں
جو اپنے مفادات کے لئے معرفت رکھتی ہیں اور ملاقات کرتے ہیں
اور اپنے مطلب کے لئے مسکرا کے
ملتے ہیں
ہم تو بس تیری خوشی کے لئے
جیتے ہیں
تمہارے ہر دکھ کو بھے خود سے
زیادہ عزیز رکھتے ہیں
تم سے زیادہ تو تم کو ہم سمجھتے ہیں
ایسی۔دعوی ہر روز وہ کیا کرتے
ہیں
مگر جب زمانے کی گردشیں چھین
لیتے ہیں حیات کے سارے حسین
پل
اور وقت کی آندھیاں اڑا لے جاتے ہیں وجود کی ساری رعنائیاں
مٹ جاتی ہیں ساری حسرتیں
اور حیثیتیں
تب بدل جاتے ہیں سب کے مزاج اور کیفیتین
پھر ختم ہو جاتے ہیں ساری رفاقتین اور رابطے
آنکھ بچا کر لوگ بدل لیتے ہیں
راستے
جیسے تعلق نہ تھا کبھی ہم سے کسی کا
نہ محبتیں نہ عزیزیت نہ رشتے
نہ کسی کی کوئے تھے واسطے
ہاں افلاس اور احساس کے درمیاں مصلحتوں کے تھے فاصلی
غم کی چادر تلے ٹوٹا ہوا وجود
مزار بن گیا تھا مفلسی کی
درد کے سمندر پے دل کے جلے ہوئے جذبوں کی خاک سے لہروں
پے لکھتی تھی داستاں اپنی
نہ کوئی پاس تھا کے اس سے لپٹ کے رو لیتی
نہ کوئی ساتھ تھا کے اس کا ہاتھ پکڑ کر درد کی دلدل سے
نکل جاتی
نہ کوئی ہمدم تھا کے جس کے کندھے پر سر رکھے غم کی شام
ڈھلتی
ہر دکھ اپنے کو آنسؤں سے جبھ دھویا تھا
جب سب آنسؤں سے دھل گیا تب حیات کے آئینی میں حقیقتیں صاف نظر آئیں
تب پتا چلا کےاس دنیا میں انسان کا اپنا کجھ بھے نہیں ہے
فر راستوں کی خبر اور منزلوں کا پتہ چلا
من کی مسجدوں سے مجبوریوں
کی محرابیں اتار دی
محرومیوں اور منکریوں کے مصلے نکال دیے
عقیدوں کے احرام توڑ دیے
اور روح ریاضتوں میں گم ہو گیا
اور دل نے اس کو پا لیا جس کا
کوئے نعم البدل نہیں ہے جو رشتوں دوستوں عزیزوں محبتوں سے پر سب سے زیادہ
قریب رکھنے والا ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنی والا
ہمیشہ ساتھ دینے والا
میرا رب
Title Image by Simon from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔