سرسید ایجوکیشنل فاؤنڈیشن پاکستان کا دوروزہ کتب میلہ
(شاہد اعوان)
کتب بینی اور اس کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے ۔ مسلمانوں کے لئے جو صحیفہ خاتم الانبیاء جناب محمد مصطفیﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوا اسے قرآن مجید فرقان حمید کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔ کتابیں تو ان گنت، ضخیم اور دلآویز بھی ہیں لیکن اس کتاب مبین کی شان ہی نرالی ہے یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم ومعرفت کا آفتاب بھی جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجا ہیں، اس کا حسن و جمال قلب و نگاہ کو یکساں متاثر کرتا ہے، اس کی تجلیات سے دنیا و عقبیٰ دونوں جگمگا رہے ہیں، اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے، اس کا پیغام عقل و خرد کو لذتِ جستجو بخشتا ہے تو قلب و روح کو بھی شوقِ فراواں سے مالامال کرتا ہے، اس کی تعلیم نے انسان کو خود شناس بھی بنایا اور خدا شناس بھی۔
نفسا نفسی کے اس دور میں جب کتاب تو کجا ہمارا نوجوان ایک سطر پڑھنا بھی اپنی توہین سمجھتا ہے سمارٹ فون کی چکاچوند نے اس کے قلب و ذہن کو اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے جس سے چھٹکارہ شاید اب اس کے بس میں ہی نہیں۔ آج بیل، کتوں کی لڑائی ، بٹیر اور مرغوں کو لڑانے کے معرکے تو بڑی شان سے منائے جاتے ہیں مگر کتاب شناسی یا کتاب بینی کی دعوت دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سالِ گزشتہ کے ماہِ دسمبر میںاٹک کے بلدیہ ہال میں دوسرا کتب میلہ منایا گیا جس کے محرک برادر عزیز ڈاکٹر شجاع اختر اعوان، جناب طاہر اسیر، پروفیسر سید نصرت بخاری، جناب مشتاق عاجز، جناب حسین امجد اور ان کی ٹیم نے اس فریضہ کو بخوبی نبھایا۔ اٹک سے واپسی پر ہماری ملاقات سرسید ایجوکیشنل فائونڈیشن کے روح رواں طاہر محمود درانی اور خوبصورت خصائل کے مالک ماہر تعلیم قاضی ظہور الحق سے ہوئی اس دوران طاہر درانی جو بڑی کامیابی اور جانفشانی کے ساتھ اٹک ، راولپنڈی اور ہری پور میں سرسید کے نام سے 18تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں جن کا ذوق و شوق بتاتا ہے کہ ان کے سکول کے آڈیٹوریم میں ہر ماہ کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی رہے۔ اس نشست میں موصوف نے احباب کے ساتھ اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم نئے سال کے ماہِ فروری میں وسیع پیمانے پر شاندار کتب میلہ کا اہتمام کریں گے جس میں ہمارے محترم اور کتاب دوست شخصیت راجہ نور محمد نظامی کی بھرپور حمایت شامل ہو گئی لیکن اس بھاری پتھر کو اٹھانے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی تمام تر ذمہ داری طاہر درانی نے اپنے ذمہ لی۔ بالآخر وہ دن یعنی 03فروری2023ء آہی گیا جب اس اہم ترین تقریب کا افتتاحی روز مقرر تھا سرسید فائونڈیشن سیکرٹریٹ حسن ابدال میں منعقدہ اس کتب میلہ کا افتتاح حسن ابدال کے نوجوان و متحرک اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی کے ہاتھوں ہوا جس میں سی ای او ایجوکیشن اٹک ملک محسن عباس، ڈی ای او ملک اکرم ضیاء کے علاوہ مصنفین، شعراء، پبلشرز اور اساتذہ، طلبہ و طالبات بھی شامل تھے۔ سٹیج کی ذمہ داریاں ہمارے مرحوم عزیز دوست ڈاکٹر رئوف امیر کی اہلیہ محترمہ عفت رئوف نے سنبھال رکھی تھیں ان کی شہزادی صاحبزادیاں نگارش اور تمکنت بھی ان کے ہمراہ تھیں ایک طویل عرصہ بعد بھائیوں جیسے مہربان دوست کی پھولوں جیسی فیملی کو دیکھ کر جیسے مجھے رئوف کی یادوں نے گھیر لیا۔۔۔۔ جو واہ کینٹ میں ادبی تقریبات کی جان ہوا کرتا تھا جس کے بغیر ادبی تقریبات ادھوری سی لگتی تھیں ، ادبی نشستوں میں اس کی گرجدار آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے:
سچ کا اظہار صاف صاف کیا
اور بھرے شہر کو خلاف کیا
خیر اس کا تذکرہ کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں کہ اس کی یادیں، باتیں، تحریریں بھلانے سے بھی نہیں بھولی جاسکتیں کیونکہ
تجھے بھلانا اول تو دسترس میں ہی نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
بھابھی عفت صاحبہ کا طرزِ تخاطب اور شعروں کی روانی ان کے مجازی خدا اور محبوب دوست کی عکاس ہیں اسی لئے تو رئوف امیرؔ کہتا ہے:
وقت خود بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ
آمرے دوست! ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ
کتب میلے کے پہلے روز ہزاروں افراد نے اپنی فیمیلیز کے ساتھ میلے میں شرکت کی اٹک کی چھ تحصیلوں کی نمائندگی کے علاوہ نیشنل بک فائونڈیشن کی دیدہ زیب کتب، راجہ نور محمد نظامی کے کتب خانے کی نایاب کتابیں، گابا پبلشر کی نصابی کتب، پشاور سے انیس بھائی کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ، اسلام آباد سے قریشی برادران، ماہنامہ کرن کرن روشنی ملتان سے علی عمران ممتاز اور سعدیہ رباب کی جانب سے بچوں کی کتب کا سٹال، مکتبہ یوسفییہ لاہور اور حسن ابدال کے متحرک نوجوان یوٹیوبر قیصر دلاور جدون اور نوجوان افسانہ نگار شاہد سلیم شاہد کا تحصیل حسن ابدال کے مصنفین کی کتب کا سٹال میلے کی زینت بنا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اٹک کے نوجوان راہنما و سماجی شخصیت سردار ذوالفقار حیات ایڈووکیٹ ، عرفان قریشی ، اٹک سے مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد، سلیم شہزاد، عابد علی، یاسر جنون و دیگر بھی کتب میلے میں شریک ہوئے ۔ دوسرے روز بھی کتب میلے کی وہی رونقیں اور تمکنت شاملِ حال تھی سٹیج پر مسز عفت رئوف بدستور جلوہ گر تھیں۔ جماعت اسلامی کا ایک وفد برادرم اقبال خان کی قیادت میں کتب میلے کو رونق بخشنے پہنچا، واہ کینٹ سے ممتاز ادبی شخصیات برادر عابد علی عابد کی مسحور کن مسکراہٹ، نزاکت مرزا، اشفاق ہاشمی، جاوید مرزا، عارف سیمابی، ایس ایم قاسمی و دیگر نے کتب میلے کی شان بڑھائی۔ اٹک سے پیپلزپارٹی خواتین ونگ کی پوری ٹیم ضلعی صدر حاجرہ بی بی اور جنرل سیکرٹری نبیلہ سید اپنی دیگر عہدیداران کے ہمراہ کتب میلے میں تشریف لائیں۔ دوروزہ کتب میلے کی اختتامی نشست میں وطن عزیز کے نامور صحافی، دانشور، مصنف جناب جبار مرزا اور سرسید احمد خان کے پڑپوتے سید احمد مسعود اسلام آباد سے خصوصی طور پر تشریف لائے سید صاحب کی اہلیہ محترمہ شاہین مسعود اور یونیسکو کی ماہر خاتون ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔۔بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔ ہزارہ سے معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر مسعود ہزاروی جبکہ پوٹھوہار کی نمائندگی قرآن پاک کا پوٹھوہاری زبان میں ترجمہ کرنے والے محمد شریف شاد نے کی اور میلے میں شمولیت کے لئے اپنی کتب بھی ساتھ لائے تھے۔ اس موقع پر کتب میلے کے آخری سیشن میں جناب جبار مرزا کا خطاب خاصے کی شے تھا جبکہ صدارت کے فرائض انہوں نے سید احمد مسود کو تفویض کر دئیے ۔ سید صاحب نے اپنی بچپن کی باتوں سے لے کر قائداعظمؒ سے ملاقاتیں اور ہجرت کی لازوال داستان بیان کر کے طلباو طالبات، اساتذہ، مصنفین اور دانشوروں کو ایک لمحہ فکریہ دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تقسیم کے وقت انتہائی کم عمری میں دہلی سے ممبئی اور ممبئی سے کراچی کا سفر ایک کشتی میں کیا اس دوران ان کی کشتی تین روز تک سمندر میں پھنسی رہی وہ بہت خوش تھے کیونکہ کشتی میں جھولے آ رہے تھے جبکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد نے قرآن پاک اور کلمہ شریف کاورد شروع کر رکھا تھا خیر پانچ روز بعد وہ کراچی پہنچے اور پاکستان کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔