کڑی سزا کا مستوجب سندھی وڈیرا
عید الاضحٰی سے چند روز قبل سانگھڑ کے علاقے منڈھ جمڑاؤ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا جو ظالمانہ اور دلخراش واقعہ پیش آیا اس نے عید کی خوشیوں کو گہنا دیا۔ ایک سندھی وڈیرے کے مزارعے کا اونٹ اس کے کھیت میں کیا گھس گیا کہ اس نے اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا جاہلانہ حکم دے دیا۔ شائد اس واقعہ میں ملوث مجرمان کو احساس تھا کہ اونٹ کو یہ اذیت پہنچانے کے لیئے ان سے کوئی پوچھ گچھ یا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ اگر یہ مجرم کسی انسان کے ساتھ ایسا کرتے تو ممکن ہے کہ اس کے وارثین ان مجرموں کی ٹانگیں کاٹتے یا انہیں قتل ہی کر دیتے۔ اس سے بڑھ کر بزدلی اور سنگ دلی کیا ہو سکتی ہے کہ یہ اندوہناک جرم انہوں نے ایک حیوان کے ساتھ کیا جس کے خطرناک نتائج کا انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔
اس سے قبل عرب کے قبائلی معاشرے میں اونٹوں کی لڑائی پر جھگڑے ہوتے تھے اور انسانوں کے درمیان قتل و غارت نسلوں تک چلتی رہتی تھی۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد یہ جہالت ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہو گئی۔ لیکن اس واقعہ نے اللہ تعالی کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قتل کا واقعہ یاد دلا دیا جس کے قاتل تو صرف 4 تھے مگر اس واقعہ کے بعد اللہ تعالی کے غضب سے ان کی پوری بستی تباہ ہو گئی تھی۔
یہ واقعہ اس انداز سے سوشل میڈیا پر تحاریر اور ویڈیوز کی شکل میں وائرل ہوتا رہا کہ عید سے پہلے ہر درد دل اداس تھا۔ ممکن ہے یہ بہت سے لوگوں کے لیئے کوئی واقعہ ہی نہ ہو۔ جو قوم فلسطین میں روزانہ بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کے کٹنے پر خاموش ہو اور احتجاج تک کرنے کی اخلاقی جرات نہ رکھتی ہو وہ اس واقعہ پر اونٹ کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کیا دلچسپی ظاہر کر سکتی ہے۔ اگرچہ اونٹ کی ٹانگ کاٹنے والے 5 ملزمان کو سوشل میڈیا کے احتجاج کی وجہ سے گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور ان کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کیا گیا۔ لیکن اگلے ہی روز یہ خبر آئی کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر اونٹ سرکاری تحویل میں کراچی پہنچایا گیا جہاں اس کا علاج بھی ہو گا اور اسے مصنوعی ٹانگ بھی لگائی جائے گی۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا یہ اعلان اس کے بعد آیا جب انڈیا کی حکومت نے اس اونٹ کے علاج اور اس کو مصنوعی ٹانگ لگانے کی آفر کی تھی۔ یہ ایک شرمناک واقعہ ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ اب یہ خبر بھی آئی ہے کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے اونٹ کے مالک کو دو اونٹ دے دیئے ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ مالک کو راضی کر دیا گیا ہے اور کیس عنقریب ٹھپ ہو جائے گا۔
انڈیا میں جانوروں پر ظلم اور ایذا پہنچانے کے خلاف 1960 کا ایکٹ موجود ہے جس کے تحت دو سال تک کی سزا اور جرمانہ شامل ہے۔ برطانیہ میں جانوروں پر ظلم کے خلاف پارلیمنٹ کا 1876 ( سیکشن 39 اور 40) کا ایکٹ اور سزا موجود ہے۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ میں بھی جانوروں کے حقوق اور ایذا رسانی کے قوانین اور سزائیں موجود ہیں۔ حتی کہ فلپائن میں بھی جانوروں کو نقصان پہنچانے کی دو سال تک سزا اور جرمانہ ہے۔ عجب تماشہ ہے کہ پاکستان میں کسی جانور کو بلاوجہ قتل کی سزا 200 روپے جرمانہ یا چھ ماہ تک قابل ضمانت قید ہے مگر انہیں تکلیف دینے یا اونٹ کی ٹانگ وغیرہ کاٹ دینے کی بظاہر کوئی قانونی سزا موجود نہیں ہے۔
ہمارے ہاں لوگ اپنے اردگرد ہونے والے ظلم پر خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے سے زیادہ بڑا جرم ہے۔جانوروں پر ظلم کرنے والے کا دل پتھر کا ہوتا ہے۔ آج جو جانوروں پر ظلم کرتا ہے وہ کل انسانوں پر ظلم کرے گا۔ سندھ میں "وڈیروں” کے ہاتھوں ہاریوں اور غریب مزارعوں کو قید کرنے اور ان پر ظلم کرنے کی داستانیں بھی مشہور ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ انسانوں پر ظلم ہونے کا معاملہ ہے، پھر جانور تو جانور ہیں وہ کس کھیت کی مولی ہو سکتے ہیں۔ شائد ہو گا بھی یہی کہ اونٹ کی ٹانگ کاٹنے والے مجرمان کی ٹانگیں نہیں کاٹی جائیں گی کیونکہ وہ انسان ہیں کے درجہ پر فائز ہیں جس وجہ سے ان ظالموں کو رعایت دی جائے گی۔ اونٹ بے زبان جانور ہے۔ وہ فریاد کے لیئے کسی عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتا ہے اور اللہ کے سوا نہ وہ داد رسی کے لیئے کسی انسان کے سامنے گڑگڑا سکتا ہے۔
جس معاشرے کے لوگ نرم دلی اور احسان و انصاف سے خالی ہوں ان پر رحمت کے بادل نہیں برستے کہ:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔