تحریر: شہزاد حسین بھٹی
کالم: دُرریز
اکیس فروری مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔محکمہ شماریات کے2017 ء اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مادری زبان اُردو بولنے والوں کی تعداد 7.57 فیصد، پنجابی 44.15 فیصد، سندھی 14.1 فیصد، پشتو 15.42 فیصد، بلوچی 3.57 فیصد، سرائیکی 10.53 فیصد جبکہ دیگر زبانیں بولنے والے 4.66 فیصد ہیں۔سندھ میں سندھی، خیبر پختون خواہ میں پشتو، بلوچستان میں بلوچی بطور نصاب سکول کے بچوں کو پڑھائی جا رہی ہے جبکہ پنجاب میں پنجابی کو بطور زبان لاگو کرنے میں حکومت اور بیوروکریسی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔اگرچہ 2019 ء میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ وہ پانچویں کلاس تک پنجابی زبان کو لازمی قرار دینے کے لیے ضروری اقدامات کرے اس کے باوجود دو سال کا عرصہ بیت چکا لیکن عملی طور پر اقدامات صفر دکھائی دیتے ہیں۔
یوں تو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں مادری زبانوں کے حوالے سے ہر سال تقریبات اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں جن کا مقصد صرف تصاویر اور میڈیا کوریج کے ذریعے ذاتی تشہیر ہے۔اس سال بھی پنجاب میں خاص طور پرلاہور، گجرات، اسلام آباد، اٹک جھنگ ساہیوال سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں ریلیوں اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
گجرات کے بلند ہمت نوجوان علی احمد گجراتی دل دریا پاکستان ادبی تنظیم کے بینر تلے پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے محدود وسائل کے باجود ہمہ وقت کوشاں ہیں اور ہرسال گجرات میں ریلی، کانفرنس اور مشاعرے کا اہتمام کرکے حکمرانوں،بیوروکریسی اوراہل پنجاب کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔میں بطور قلم کار علی احمد گجراتی کی جذباتی شخصیت کو عرصہ دوسال سے دیکھ رہا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ پنجابی زبان کا پنجاب میں نفاذ اور مرتبہ دیکھنا ہی اس نوجوان ادیب کا مشن ہے۔یہ نوجوان بڑی لگن سے ریلی، کانفرنس و مشاعرے کے لیے انتظامات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دل دریا پاکستان نامی ادبی تنظیم کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر عامرظہیر بھٹی ہیں جبکہ چیرمین نامورماہر تعلیم ادریس چیمہ ہیں۔یہ تنظیم دیگر پروگرامز کے علاوہ ہر سال اکیس فروری کو ریلی، کانفرنس اور مشاعرے کا اہتمام بھی کرتی ہے جس میں پنجابی زبان و ادب سے جڑی شخصیات، اس فرض کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں اور حل کے حوالے سے حاضرینِ محفل کو آگاہ کرتے ہیں۔
گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی علی احمد گجراتی کا گجرات میں مادری زبان کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ پروگراموں میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا۔اگرچہ یہ دن اسلام آباد اور میرے آبائی شہر کیمبلپور(اٹک)میں بھی منایا جا رہا تھا اور میرے عزیز دوست پروفیسر نصرت بخاری نے بھی مجھے مدعو کر رکھا تھا لیکن ان سے معذرت کرنا پڑی اور گجرات کے پروگرام کے لیے تیاری پکڑ لی۔ میرے ہمسفر معروف ادیب اقبال زرقاش ہفتے کو اسلام آباد پہنچ گئے اور ہم اتوار کو روات سے گجرات کے لیے روانہ ہوئے۔ دینہ میں ہمارے قلم کار دوست و صحافی اظہر چورہدری سے ملاقات ہوئی، تواضع کے بعد ہم کھاریاں پہنچے، وہاں ہمارے انجینئر دوست محمد عمر رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے ہائی ٹی کا بندوبست کررکھا تھا۔ جلدی جلدی چائے و دیگر لوازمات سے فارغ ہوئے اور اجازت چاہتے ہوئے وہاں سے لالہ موسیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔لالہ موسیٰ میں پنجابی کے عظیم گلوکار حاجی محمد عالم لوہار جی ٹی روڈ کنارے صوفی بزرگ صوفی جی راج ولی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے احاطے میں مدفن ہیں۔ مزار پر حاضری و فاتحہ خوانی کے بعدجونہی باہر نکلے تو دیکھا کہ مزار کے قریب سٹرک کنارے گندگی کا ڈھیر لگا ہوا تھا جو یقینا انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا آئینہ دار تھا۔یہاں سے سروس موڑ گجرات ساڑھے گیارہ پہنچے تو علی احمد گجراتی، ادریس چیمہ، ندیم عاصم، ناھید اختر ملہی،غزالہ کوثر،مقصود یاور و دیگر احباب پہلے سے موجود تھے۔ ریلی بارہ بجے شروع ہوئی جو کچہری چوک پر جا کر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کے شرکاء ایک کثیر تعداد میں موجود تھے جو ڈھول کی تھاپ پر پنجابی زبان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ چھوٹے بچوں نے ہاتھوں میں بینرز تھام رکھے تھے جن پر پنجابی زبان پڑھائے جانے کے حق میں نعرے درج تھے، ریلی کے بعد ڈسٹرکٹ کونسل ہال گجرات میں کانفرنس کا آغاز ہوا جسکی صدارت پروفیسر ادریس چیمہ نے کی۔ مقررین، جن میں ناچیز بھی شامل تھا، نے اپنی تقاریر میں پنجابی زبان کی اہمیت کو اجاگرکیا اور اس کے نفاذ کے حوالے سے عملی پیش رفت پر سیر حاصل گفتگو کی۔اس کے بعد پنجابی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پنجابی زبان ہی مرکز بنی رہی۔
حکومتِ پاکستان نے بھی 21 فروری کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ہماری مادری زبان کے پاس ہزاروں سال کی تہذیب، ہماری شناخت، روحانیت اور اقدار کا نظام ہے جس برادری میں ہم رہتے ہیں۔تاہم سب کوششیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ہمیں پنجاب اسمبلی میں پنجابی میں بات کرنے کے لیے اسمبلی کے اسپیکر سے اجازت لینی پڑتی ہے اور ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہوتا۔کیا اسے قول اور فعل میں تضاد نہیں کہا جائے گا؟ مادری زبان میں بات کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اس میں کیا شرمندگی ہے؟ اگر مادری زبان نہیں بولیں گے تو یہ آہستہ آہستہ مر جائے گی اور اس کے ساتھ ہزاروں سال کی ثقافت بھی۔ اس کا آسان حل ملک میں زیادہ قومی زبانیں تسلیم کرنا ہے۔ انڈیا میں 21 قومی زبانیں ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں چار۔ تو کیا پاکستان میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں بنانا کوئی بڑا مسئلہ ہے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کی زبان کو فی الفور ناٖفذکرنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ احساسِ محرومی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔اکیس فروری 1952 ء کی یاد میں منایا جانے والا عالمی ماں بولی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ڈھاکہ میں کی جانے والی غلطی کو جاری رکھنا غیر مناسب ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو جان لینا چاہیے کہ آج تک کسی بھی ملک نے ماں بولی کے علاوہ زبان میں 100 فیصد لٹریسی کا ٹارگٹ حاصل نہیں کیا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑا مقام حاصل کیا ہو اور وہاں ابتدائی تعلیم ماں بولی میں نہ ہو اس لئے اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو زمینی حقیقتوں کو مان کر چلنا ہوگا ورنہ غلطی پر غلطی اور ناکامی کے بعد ناکامی مقدر بن جائے گی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔