شفیق ؔبریلوی :تین شہروں کا ایک شاعر

شفیق ؔبریلوی :تین شہروں کا ایک شاعر

ضلع بہرائچ میں اپنے اپنے وقت میں ممتاز شعراءکرام نے اپنی الگ پہچان بنائی ۔کسی نے نعتیہ شاعری، کسی نے غزل کے میدان میں کسی نے مختلف ادبی صنفوںمیں اپنی منفرد پہچان بنائی انہیں میں ایک اہم نام سابق پرنسپل آزاد انٹر کالج، محمد حسن کالج جون پور محمد سعید خاں تخلص شفیق ؔ بریلوی کا نام نامی اپنا الگ مقام رکھتا ہے ۔شفیقؔ صاحب نے نظم گوئی کے میدان میں شمع روشن کی اور بہرائچ میں نظم گوئی کو ایک مقام دلایا جو نا تو ان سے پہلے اور بعد میں کوئی چھو سکا۔ شفیقؔ صاحب کی ولادت ۹؍مئی۱۹۱۷ء(ہائی اسکول کے سرٹیفیکیٹ کے مطابق)میں بریلی میں ہوئی تھی۔آپ کے والد کا نام عبد الوحید خاں تھا۔آپ اصلاً بریلی کے ہی رہنے والے تھے اور ۱۹۴۰ءمیں بہرائچ میں سکونت اختیار کی۔آپ نے تعلیم ایم ۔اے(اردو وانگریزی ادب)تک حاصل کی ۔آپ کی تربیت ایک قدامت پرست گھرانے میں ہوئی جہاں نفع و نقصان بھی عزت کے ترازو میں تولے جاتے تھے اور جہاں زندگی کے اہم ترین فیصلے بزرگوں کی مرضی کے کئے جاتے تھے۔

شفیق ؔبریلوی :تین شہروں کا ایک شاعر

شفیق ؔ صاحب اپنے حالات میں لکھتے ہیں:۔
”ایک جذباتی حادثہ کا شکار ہو کر۱۹۴۰ءمیں وطن(بریلی)کو خیرباد کہا۔والدین کی شفقت اور رہنمائی اور بہن بھائیوں کی محبت اور غمخواری سے محروم ہو کر تمام عمر ایک کشتیٔ بے بادباں کی طرح جھکولے کھاتے گذری،عافیت ساحل کبھی نصیب نہ ہوئی۔۱۹۴۱ءمیں بہرائچ شادی کی اور یہیں سکونیت اختیار کر لی۔ “(گہر ہونے تک ، ۱۹۹۱ء، ص۳۳)
آپ کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے ۔۱۹۵۰ءسے آپ نے شعرگوئی میں قسمت آزمائی کی۔آپ لکھتے ہیں کہ بہرائچ کے مختصراور محدودادب کی سرگرمیاں آل اندیا مشاعروں کی ہوحق سے کہیں زیادہ مہذّب اور تسکینِ ذوق کا باعث رہیں۔۱۹۷۷ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
پروفیسر عنوان چشتی لکھتے ہیں:۔
”شفیق ؔاردو کے ان شاعروں میں شامل ہیں جن کی شاعری ان کے ذہن و ضمیر کی واضح آواز ہے۔اس آواز میں جو رنگ و نور ہے اس کی شناخت ہو جاتی ہے۔شفیق ؔصاحب کے کلام کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک انسان دنیا کو جہان ِ کہسار سمجھ کر آہستہ چلنے کا پرور ہے۔ “(گہر ہونے تک ، ۱۹۹۱ء، ص۱۸)
سید فرحت علی لکھتے ہیں:۔
”گورنمنٹ سروس میں آنے کے بعد بہرائچ میں ۱۹۵۰ءمیں میری پوسٹنگ ہوئی۔خلاف توقع بہرائچ میں قیام کا زمانہ بڑی خوشگوار یادوں کا زمانہ گزرا۔شام کو کلب میں ٹینس،تعطیلات میں شکاراور ہر اتوار کو پولس لائن گراؤنڈ میں کرکٹ میچوں کا سلسلہ ۔یہی سلسلہ سعید صاحب( شفیق ؔ بریلوی) سے ملاقات کا سبب بنا ۔سعید صاحب بہت اچھے کریکٹر تھے اور ہم دونوںنے مل کر بعض ایسے میچوںمیں اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنارکرایا جن میں شکست یقینی تھی۔سعید صاحب کا کھیل میں بھی ایک منفرد اسٹائل تھا ۔شائستہ،مہذب اور فرحت بخش۔ دیوان سندر داس بہرائچ میں کپور تھلہ اسٹیٹ کے منیجر تھے ۔آکسفورڈ کے کلر ہولڈر تھے اور ہماری ٹیم کے ایک معزز اور اچھے کھلاڑی تھے،سعید صاحب کے کھیل کودیکھ کر اکثر فرماتے تھےکہIt is a pleasure to watch his game.شفیق ؔ صاحب کی شاعری اور ان کی کرکٹ میں بڑی مماثلت ہے ۔وہی شائستہ، مہذب اور فرحت بخش طرز ادا جو ان کے کھیل کو دوسروں سے ممتاز کرتا تھا ،ان کی غزلوں میں بھی وہی جھلک ملتی ہے۔یہ فن اور شخصیت کا پر اسرار رابطہ ہی ہے جو فنکارکی پہچان بن جاتا ہے۔“(گہر ہونے تک ،۱۹۹۱ء،ص۲۱- ۲۲)
محمد نذیرخاں لکھتے ہیں:۔
”شفیق ؔبریلوی کا نعتیہ کلام حالیؔ اور اقبالؔ کی صالح روایات ،تحقیقی آہنگ، مبنی بر حقائق رجحان،رعنائی،اور دلآویزی سے بھر پور طرزِ ادا کا امین ہے۔ان کی شاعری کی جوئے نرم روروش عام سے الگ ایسی سرسبزشاداب وادیوں سے گزرتی ہے جہاں روح کو سکون ،دل کو توانائی اور ذہن کو روشنی ملتی ہے۔آپ کے نعتیہ کلام میں جذبات کی گرمی،احساسات کی نزاکت،تخئیل کی رعنائی،ٹھوس حقائق اور تاریخی واقعات اور شاعرانہ محاسن،حیرت انگیزMathmetical precisionکے ساتھ باہم شیر وشکر ہو کر پیہم رواں اور ہر دم جواں محسوس ہوتے ہیں۔آپ کی نعتیہ شاعرالفاظ اور تراکیب کا محض ایک خشک مجموعہ نہیں بلکہ ذات گرامی رسولؐسے ان کی سچی عقیدت اور محبت نے آپ کے اشعار میں ایسی بجلیاں بھر دی ہیں جن کی تڑپ اور سیمابیت سامع اور قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی وہ جب اپنے مخصوص دھیمے ترنم میں نعت پڑھتے تو ان کے دل ناصبور کی بے تابی ان کے چہرہ بشرہ سے ظاہر ہوتے۔۔۔۔۔شفیق ؔ بریلوی کی نعتوں میں الوہیت کی تجرید وتنز میہ ،نبّوت کی عظمت وجلالت اور کمالات محمدیؐ کے خصائص و کوائف اپنے مقام پر رہتے ہیں۔بنیادی طور پر آپ ایک غزل گو ہیں۔تغزل کی لطافت اور رغنائیت نے انکی نعتیہ شاعری کو ایک سرمدی لئے ایک ایسا عجیب آہنگ عطا کیا جوموجودہ نعت گوشعراء میں نایاب ہے۔“(صدف صدف گہر،۱۹۹۴ء ص ۲۴-۲۵)
پروفیسر طاہر محمود لکھتے ہیں:۔
”شفیق ؔ صاحب کو چھوٹے بڑے سب احترام سے ’’ماسٹر صاحب‘کہتے تھے۔وہ ایک مقبول اسکول ٹیچر تھے لیکن اصل پہچان آپ کی شاعری اور خوش الحانی تھی۔ہمارے بچپن کا زمانہ تھا ۔ایک عرصہ بعد جب لکھنؤ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ہر چھوٹی بڑی چھٹی میں گھر بھاگ جایا کرتےتھے ہمیں ماسٹر صاحب سے قربت کا موقع ملا۔وہ اس وقت آزاد انٹر کالج کے نام سے معروف شہر کے واحد مسلم اسکول کے پرنسپل تھے جس کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر ہمارے والد سید محمود حسن مرحوم تھے۔ماسٹر صاحب تقریباً روز ہی ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور اسکولی کاموں کے علاوہ شعر وشاعری بھی ہوتی رہتی تھی۔کلام تو اعلیٰ درجہ کا ہوتا تھا ان کی خوش الحانی بھی سبھی کو مسحور کرتی تھی۔میں تعلیم پوری کرنے کے بعد جونپور کے ایک کالج میں استاد ہو گیا چند ماہ بعد ماسٹر صاحب بھی مقامی محمد حسین انٹر کالج کے پرنسپل بن کر بہرائچ سے جونپور آگئے تھے اور شروع میں میرے ہی مہمان رہے۔ایک سال بعد میں تو علی گڑھ آگیا لیکن ماسٹرصاحب وہیں رہے۔جب آپ بہرائچ کا آزاد انٹر کالج چھوڑ کر جونپورمنتقل ہو رہے تھے تو بہرائچ میں ایک الوداعی جلسہ ہوا جس میں مقبول شاعر ساغرؔ مہدی نے ایک بڑی جذباتی نظم پڑھی تھی جس کا ماسٹر صاحب سے سنا ہوا یہ شعر جو یاد ہے ۔ ؎
نہ روک پائے آپ کو یہ واقعہ عجیب ہے
مری غریب درسگاہ کس قدر غریب ہے
طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ میری آخری ملاقات جنوری ۱۹۹۷ءمیں ہوئی جب ہم بہ حیثیت صدر قومی اقلیتی کمیشن اپنے آبائی شہر کے دورے پر آئے تھے۔وہ صاحب فراش تھے اور ہم نے ان کے پاس حاضر ہونا چاہاتھا مگر ان کے اصرار پر اپنی سرکاری گاڑی بھیج کر انہیں غریب خانہ تک آنے کی زحمت دی تھی۔ (ہم دشت میں دیتے ہیں اذاں ،۲۰۱۱ء ،مضمون بھولابسرا سخنورشفیق ؔبریلوی سے نقل)
شفیق ؔبریلوی کو تین شہروں کا ایک شاعر اس لئے کہنا مناسب ہے کہ وہ پیدائشی طور پر بریلی سے تعلق رکھتے تھے اور سکونت اور رہائش ہجرت کرکے بہرائچ میں اختیار کی اور ملازمت کے سلسلے میں شیراز ِ ہند جون پور میں بھی عرصہ دراز تک قیام رہا ۔جون پور میں ملازمت سے شکبدوش ہونے کے بعد مستقل طور پر بہرائچ آگئے اور یہیں کے ہو کر۱۱؍فروری ۱۹۹۹ء کو اس دارِ فانی سے وداع ہوئے۔آپ کو مرکزی عیدگاہ قبرستان میں ہمیشہ کے لئے سپردِخاک کیا گیا۔
شفیق ؔ بریلوی صاحب کے دو مجموعہ کلام شائع ہوئے ۔ایک غزلوں کا مجموعہ’’ گہر ہونے تک‘‘ مطبو عہ ۱۹۹۱ء اوردوسرا نعتوں کا مجموعہ’’ صدف صدف گہر ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۴ء
نمونہ کلام
تجھے کیا بتاؤں میں ہم نشیں مری زندگی کا جو حال ہے
نہ مسرتوں کی کوئی خوشی نہ غموں کا کوئی ملال ہے

افسوس تسلسل زلف و رخ اس شام و سحر نے توڑ دیا
بے ربط سا ہے اب قصۂ دل کچھ بھول گئے کچھ یاد بھی ہے
غزل
اس بزم تغافل میں ہمدم ،ہوتی ہے جفا دھیرے دھیرے
کرتے ہیں ستم گاہے گاہے،آتی ہے قضا دھیرے دھیرے
اک بار جو ہنس لیتے ہیں کبھی،سو مرتبہ رونا پڑتا ہے
ہر لطف ومسرت قرض ہے اک، ہوتاہے ادا دھیرے دھیرے
وہ اپنی جفاؤںکو پیہم ،احسان و وفا فرماتے ہیں
اس دنیا میں ہو جاتی ہے ہر بات روا دھیرے دھیرے
ہر زخم کا اک مرہم ہے یہاں،ہر درد کا اک درماں ہے مگر
درد اٹھتاہے آندھی کی طرح،ہوتی ہے دوا دھیرے دھیرے
انداز ستم کو اب ان کے ،سب لوگ کرم ہی کہتے ہیں
آتا ہے جفاؤں کے فن میں،یہ حسنِ ادا دھیرے دھیرے
یہ حوصلۂ غم بھی اپنا بے شبہ شفیق ؔعجب شے ہے
وہ ہونے لگے ہیں اپنے ستم پر آپ خفا دھیرے دھیرے

Juned

جنید احمد نور

بہرائچ، اترپردیش

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سیّدزادہ سخاوت بخاری ایک مسحورکن شخصیت

ہفتہ فروری 18 , 2023
وہ عالم بالا کے مکیں ہو کے عالم دنیا کے لیے نایاب ہوگئے لیکن ان کے افکار اور کردار ہمیشہ تابندہ رہیں گے ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری ایک مسحورکن شخصیت

مزید دلچسپ تحریریں