سینیٹر تاج حیدر: ایک سیاستدان اور فلسفی کی رحلت
(8 اپریل 2025ء، یوم وفات پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
تاج حیدر پاکستان کی سیاسی، علمی، ادبی، فکری اور فلسفیانہ دنیا کا ایک ایسا روشن چراغ تھے، جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک ہر میدان میں بصیرت، سچائی، جمہوریت اور ترقی پسندی کی شمع روشن کیے رکھا۔ وہ نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے بلکہ ملکی پالیسی سازی، تعلیم، سوشل ویلفیئر، فنونِ لطیفہ، ڈراما نگاری اور ایٹمی منصوبہ بندی جیسے حساس شعبوں میں بھی اپنے افکار و کردار کی چھاپ چھوڑ گئے۔
تاج حیدر 1942ء میں کوٹہ (راجستھان) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے بعد کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جامعہ کراچی سے ریاضی میں بی ایس سی (آنرز) اور بعد ازاں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علمی فکر اور تجزیاتی سوچ ان کے فکری پس منظر کا حصہ بن گئی۔
ادب اور فنونِ لطیفہ سے تاج حیدر کی محبت ان کے ڈراموں، کالموں اور تحریروں سے جھلکتی ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن پر ان کے لکھے ہوئے ڈرامے جیسے آبلہ پا، چارہ گر، جنہیں راستے میں خبر ہوئی اور لب دریا عوامی شعور کو جگانے کا ذریعہ بنے۔ ان کے ڈراموں میں ہمیشہ سماجی ناانصافی، پسماندہ طبقات کی محرومیاں اور سیاسی شعور کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں۔
تاج حیدر نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے سوشلسٹ کنونشن میں شرکت کی اور پھر تاحیات اس پارٹی کے وفادار اور متحرک رکن رہے۔ ان کا سیاسی فلسفہ عوامی مسائل کا حل، ریاستی اداروں میں توازن اور جمہوریت کی بالادستی پر مبنی تھا۔ وہ 1995ء میں پہلی بار سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے، بعد ازاں 2014ء میں دوسری مرتبہ سینیٹ میں نمائندگی کی۔
تاج حیدر نے بطور پالیسی ساز کئی کلیدی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کیا، جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، حب ڈیم، تھر کول پراجیکٹ، منچھر جھیل کی بحالی اور سینڈیک انٹیگریٹڈ منیرل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ شامل ہیں۔ ان کے ترقیاتی وژن میں ماحولیات، تعلیم، صحت اور انرجی جیسے بنیادی شعبے شامل تھے۔
ان کی فکری وابستگی بائیں بازو کی سیاست اور مارکسسٹ فلسفے سے تھی۔ ان کی تحریریں معاشرتی جمہوریت، ریاستی طاقت کے توازن اور سماجی شعور کے فروغ کا پتا دیتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں ان کی تحریریں اور مزاحمت بھرپور انداز میں سامنے آئیں۔ نیوکلیئر پالیسی کے سلسلے میں ان کی بیباکی اور قومی خودمختاری کے حق میں دلیرانہ مؤقف قابلِ ستائش ہے۔
تاج حیدر نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا اور عالمی سیاسی و سماجی رجحانات کو پاکستانی معاشرے سے جوڑنے کی سعی کی۔ ان کا وژن بین الاقوامی سطح پر پختگی اور شعور کا حامل تھا۔
8اپریل 2025ء کو کراچی میں سرطان کے باعث ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات پاکستان کے علمی، ادبی، سیاسی اور فکری حلقوں کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
ان کی شاندار خدما ت کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز کا اعلیٰ اعزاز عطا کیا ہے۔ پی ٹی وی نے نے انہیں بہترین مصنف کاایوارڈ 2006ء میں عطا کیا ہے۔ وہ ایک بہترین ریاضی دان، جنگ مخالف کارکن، سیاستدان، ڈرامہ نگار، فلسفی اورنڈر کالم نگار تھے۔
تاج حیدر ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے علم، ادب، سیاست، فلسفہ اور عوامی خدمت کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی تحریروں، ڈراموں، سیاسی موقف، پالیسی سازی اور فکری استقامت کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ معاشرتی ترقی، فکری آزادی اور انسانی وقار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ”تاج حیدر زندہ رہے گا ہر اس لفظ میں جو سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہے، ہر اس قدم میں جو ظلم کے خلاف اٹھتا ہے”۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |