خودانحصاری مگر کب؟
ہمارے اعمال و کردار ترقی پذیر ممالک جیسے نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ راولپنڈی باڑا مارکیٹ میں خریداری کرنے جاتے تھے تو ہر اس چیز کو رد کرنا ہمارا معمول ہوتا تھا کہ یہ چائنا کی بنی ہوئی ہے۔ آپ مارکیٹ سے وہی چیزیں مثلا استری، تھرماس یا کلاتھ اور برتن وغیرہ خریدنے کو ترجیح دیتے تھے جن پر میڈ ان جاپان، اٹلی، انگلینڈ یا جرمنی وغیرہ لکھا ہوتا تھا۔ جس چائنا کو کبھی آپ ناقص یا سستا سمجھتے تھے آج امریکہ بھی اسی چائنا کا مقروض ہے۔ ماضی میں چین کی ان مصنوعات کی بہتات سے بآسانی پیش گوئی کی جا سکتی تھی کہ چین کتنا بڑا صنعتی ملک ہے اور مستقبل قریب میں وہ کتنی بڑی طاقتور معیشت بننے جا رہا ہے۔ یعنی کسی بھی ملک یا معاشرے کا ماضی اور حال اس کے مستقبل کی خبر دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ہمارا معاشرہ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ترقی دکھانے کی بجائے تنزلی ظاہر کر رہا ہے اور صنعت و ایکسپورٹ تو بلکل ہی تباہ ہو گئی ہے۔
ایک وقت تھا جب سنہ 1962ء تک چینی سربراہان مملکت پاکستان کی مثالی صنعتی ترقی کو دیکھنے کے لیئے پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے اور اس وقت کے پاکستانی کاروباری گروپس سہراب، داؤد اور آدم جی وغیرہ کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ یہ پاکستان کی صنعتی ترقی کا وہی دور تھا جب آج کے امیر ترین ممالک جاپان اور جرمنی وغیرہ بھی پاکستان کے مقروض تھے۔ تب پاکستانی مصنوعات ہر ملک کو برآمد کی جا رہی تھیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج کہاں یہ ترقی یافتہ ممالک اور کہاں بیرونی قرضوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا پاکستان، بقول شاعر کہ:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے،
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
آپ ہمسایہ ملک ایران کی ترقی کرنے کی رفتار ہی کا جائزہ لے لیں کہ اس پر گزشتہ پینتالیس سالوں سے عالمی پابندیاں ہیں، اس کے باوجود ایران کی ترقی کرنے کی رفتار میں کمی نہیں آئی ہے۔ آپ کبھی ایران جا کر دیکھیں کہ پاکستان کے مقابلے میں وہ کس قدر ترقی یافتہ ملک ہے۔ ایران کی ترقی کی بنیادی وجہ ہی اس پر عائد کی گئی عالمی پابندیاں ہیں کہ اس نے خودانحصاری سیکھ لی ہے۔ جبکہ پاکستان نے خود انحصاری کی بجائے آئی ایم ایف اور بیرونی ممالک سے قرضوں پر انحصار کرنے کو ہی اپنی عادت بنا لی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں ہی کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب، چین اور ملائشیا وغیرہ سے پاکستان میں انوسٹمنٹ کی آمد کو اپنی کامیابی کا زینہ سمجھ لیا ہے حالانکہ اس کے بدلے میں پاکستان مزید دوسرے ممالک پر انحصار کرنے کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ایران کی اس خودانحصاری کی بنیاد پر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی طرح ایران بھی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ لیکن پاکستان اور ایران کی معیشت کا فرق یہ ہے کہ ایران پر پاکستان کی طرح اتنا بڑا کوئی بیرونی قرضہ نہیں ہے۔ جبکہ ہر نئی پاکستانی حکومت بیرونی قرضوں ہی کو اپنی کامیابی کی بنیاد سمجھتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے ہمیں آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملتا ہے ہم اسے تعلیم کے فروغ یا نئی صنعتیں لگانے کی بجائے وفاق اور پنجاب میں اربوں نہیں تو کروڑوں کی گاڑیاں خرید لیتے ہیں جس کی مثال 80کروڑ کی پنجاب اور 61 کروڑ کی وفاق میں نئی گاڑیوں کی خریداری ہے۔ پاکستان کیسا ملک ہے کہ اسی نون لیگی حکومت نے پاکستانی عوام کو "کشکول” توڑنے کا نعرہ دیا تھا اب وہی حکومت سرمایہ کاری کے روپ میں کشکول کو دراز کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
چین پاکستان کے 2 سال بعد 1949ء میں آزاد ہوا مگر آج وہ دنیا کی دوسری بڑی "سپر ہاور” بن چکا ہے۔ پاکستان کی آج بھی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن چین کو دیکھیں کہ اس نے کتنی تیزی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی ترقی کرنے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ نے چین کو ٹیکساس میں پینتالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا موقع فراہم کیا ہے جس میں سات بلین ڈالر مالیت کی جدید الیکٹرانکس اور چپس بنانے کی فیکٹری لگانے کا ٹھیکہ بھی شامل ہے۔
جدید دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے مگر پاکستان اس میں پیچھے ہی نہیں بلکہ اس طرف کوئی بھی نئی حکومت توجہ نہیں دے رہی ہے۔
چین پاکستان کا اچھا دوست ہے جس کے بارے ہماری ہر حکومت کا دعوی رہا ہے کہ اس سے ہماری دوستی ہمالیہ کے پہاڑوں سے بھی اونچی ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ گوادر منصوبے میں چین کے تعاون کے باوجود ہم نے اس سے کیا سیکھا ہے یا اس سے ہم نے کس حد تک دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
سی پیک کے منصوبے ہی کو دیکھ لیں کہ اس مد میں آج تک 19 چینی انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کا قتل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں ملک دشمن عناصر اور دہشت گرد آج بھی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم ہمسایہ دوست ملک چین سے سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھ لیتے یا خودانحصاری کے ذریعے اپنے پاؤں پر آپ ہی کھڑا ہونا سیکھ لیتے ہم آج بھی بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں یا ہماری یہ اجتماعی سوچ بن گئی ہے کہ پکی پکائی کھانی ہے یا قرض کی مے لے کر عیاشی کرنی ہے جو پہلے ہی تقریبا ہماری ہر حکومت کرتی چلی آ رہی ہے۔
Title Image by Nico Franz from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔