تعلیم دوست حکومت کی تلاش

تعلیم دوست حکومت کی تلاش


تحریر محمد ذیشان بٹ

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھار دیتا ہے یہاں تک قران نے غیر پڑھے لکھے شخص کو قرآن نے مردہ سے تشبیہ دی ہے ۔ علم کو دولت پہ فوقیت ہے اس لیے کہ دولت کی حفاظت کی جاتی ہے جبکہ علم انسان اور اس کی دولت کی حفاظت کرتا ہے ۔ علم ہی کے ذریعے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے ،اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو پہچانتا ہے ۔ آج تک دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں ،جان لیوا بیماریوں کا علاج ، جنگوں کو ختم کرنا وہ اہل علم کی ہی وجہ سے ہو پایا ہے۔ جاہل تو معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنا بھی دشمن ہوتاہے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے یہ ملک لاکھوں قربانیوں کے بعد بنا ، جو کہ اللہ کا ایک انعام ہے اس کو بنے ہوئے 77 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک یہاں کے باسی ایک تعلیم دوست حکومت کی تلاش میں ہیں ۔ کئی اہل علم شخصیات یہ حسرت لیے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگی نہ جانے ہمیں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں گے جن کی یہ حسرت پوری ہوگی یا نہیں ۔ آغاز سے ہی ملک انتشار کا شکار رہا نہ جمہوریت پھلی پھولی اور نہ آمروں کو فرصت ملی کہ وہ اس قوم کے معصوم بچوں کو پڑھا سکیں ۔ بجٹ میں ہمیشہ ہی تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ۔ سیاستدان ہمیشہ سے ہی مفاد پرست رہے اور اس معاملے سے آنکھ چراتے نظر آئے ۔ بلکہ ان کی تو یہ کوشش ہی رہی کہ قوم جاہل ہی رہے تاکہ ٹرک کی بتی کے پیچھے آسانی سے لگی رہے ۔ زندہ باد ، مردہ باد ، مرنے مارنے اور دھرنے دینے کے لیے مفت کے مزدور ملے رہیں ۔ کیا ضرورت پڑی ہے ان کو پڑھانے کی ورنہ شعور آ جائے گا ، سوال پوچھیں گے کچھ عرصہ قبل ہی نگران وزیراعظم کے یونیورسٹی کا دورہ بھی ہم سب کو یاد ہی ہوگا ۔ نئے تعلیمی ادارے بنانا ، پہلے سے قائم اداروں کو بہتر بنانا تو بہت دور کی بات ہے حال ہی میں خبر سننے کو ملی ہے پنجاب حکومت نے وزیروں کے گھر بنانے کے لیے اربوں روپے کے فنڈ منظور کیے ہیں لیکن تعلیم پہ خرچ کرنے کے لیے ان کے پاس ککھ بھی نہیں ۔

اس حوالے سے ایک لطیفہ جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک وزیر صاحب کسی ہوٹل پہ کھانا کھا رہے تھے ایک شخص نے پوچھا آپ وزیر ہیں اس نے کہا جی وہ شخص کاؤنٹر پہ گیا اور وزیر کا بل ادا کر دیا ۔ موصوف کو پتہ چلا تھا پوچھا کہ میرا بل آپ نے کیوں ادا کیا اس شخص نے جواب دیا کہ آپ کا بجلی، گیس ، پانی کا بل ہم دیتے ہیں ، آپ کی سیکیورٹی کا خرچہ اٹھاتے ہیں آپ کے آنے جانے، رہائش کے خرچے عوام برداشت کرتی ہے تو سوچا کہ کھانے کا بل بھی ہم ہی دے دیتے ہیں اسی طرح گرمی ابھی کورسوں دور ہوتی ہے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ، سردی کا نام و نشان نہیں ہوتا سکول بند کرو۔ کوئی احتجاج کا ابھی صرف اعلان کرتا ہے فورا ہی چھٹی ۔ حال ہی میں اسلام آباد میں انٹرنیشنل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جو کہ ملک کے لیے خوشایند ہے لیکن اس کے لیے پورے اسلام اباد اور راولپنڈی میں چھٹی کر دی ۔ کسی اہل اقتدار کا دل نہیں کانپا کہ تعلیم کا کتنا حرج ہوگا تعلیم تو نام ہی تسلسل کا ہے لیکن وہ سوچیں بھی کیوں کہ ان کی اولادیں تو یہاں پڑھتی ہی نہیں وہ تو سب باہر پڑھتے ہیں ۔ کسی نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا تھا نا کہ پاکستان حکمرانی کے لیے بہت اچھا ہے ، رہنے کے لیے بہت نامناسب ہے ان کو عوام کے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سوچنا ہم لوگوں کو مل کر ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ۔ بہرحال اللہ خالق و مالک سے یہ دعا ہے کہ اس ملک میں ایسی کوئی تعلیم دوست حکومت بنا دے جو فنڈ بے شک نہ دے کم سے کم جو لوگ اس ملک میں بچوں کو پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسی قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کر رہے جو چھٹیاں ملنے پر خوش ہوتی ہے ان کو کم از کم مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ کاش یہ بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آ جائے تاکہ وہ پورا ملک بند کر دیں لیکن کبھی تعلیمی ادارے نہ بند کر سکیں تاکہ ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کر کے حقیقی معنوں میں اس قوم کی خدمت کر سکیں یا واضح طور پر ہمیں بتا دیں کہ ہمیں کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر کوئی میجر عزیز بھٹی ، جان شیر خان جہانگیر خان کوئی سائنس دان ہمیں نہیں چاہیے۔ ہم نے صرف ہجوم اکٹھا کرنا ہے تاکہ ہمارے مقاصد حاصل ہوتے رہیں باقی عوام جانے اور ان کا خدا جانے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مصنف ساز پارس

اتوار اکتوبر 13 , 2024
آغا جہانگیر بخاری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن نوآموز لکھاریوں کو انہوں نے متعارف کروایا، آج وہ ان کی پہچان بن چکے ہیں
مصنف ساز پارس

مزید دلچسپ تحریریں