علمی معراج
کسی بھی نظریئے اور فلسفے کو آخری سچائی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ بے جان چیزیں مسلسل بدلتی ہیں اور جاندار چیزیں بدستور ارتقاء سے گزرتی ہیں۔
فطری اصولوں کے مطابق دنیا میں صرف وہی اقوام ترقی اور نشوونما کر سکتی ہیں جو فطرت کے اصولوں کی پابندی کرتی ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی نوع اپنے ماحول سے جتنی موافقت و مناسبت رکھتی یے وہ اپنی بقا کے لیئے اتنی ہی زیادہ موزوں قرار پاتی ہے۔ ڈاروان کا ‘نظریہ ارتقاء’ بھی اپنی اسی موزونیت کی وجہ سے آج تک زندہ ہے کہ یہ نظریہ جانداروں کی بقا کی جدوجہد؍ مسلسل کی تشریح کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر جانداروں سے اپنی زندگی کی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
‘نیچرل سیلیکشن’ کے مطابق بھی کوئی نوع دوسری انواع کے مقابلے میں زیادہ دیر اس وجہ سے زندہ نہیں بچتی ہے کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے بلکہ وہ اس بنیاد پر تادیر قائم رہتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابقت اختیار کر لیتی ہے۔ ارتقاء کے اس اصول کو انگریزی زبان میں "Survival of the fittest” کہا جاتا ہے یعنی یہ قانون قدرت ہے کہ ایک جاندار مخلوق کو زندہ رہنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیئے وہی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو اس ماحول میں زندہ رہنے کی اصل اور فطری ضرورت ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت کے لیئے ماحولیاتی ہم آہنگی اور مطابقت کے لیئے نظریہ ارتقاء میں انواع کی ایسی جسمانی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن کی بنیاد پر انواع میں ان کی رنگت سے لے کر جسمانی اعضاء تک میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جو سائنسی طور پر مصدقہ ہیں۔
مغربی معاشروں کی ترقی کا راز بھی انہی ارتقائی اصولوں پر استوار ہے کہ افراد اور معاشرے تو کیا کائنات کی کوئی بھی مخلوق اگر حرکت، تبدیلی اور ارتقاء کے اس عمل سے نہ گزرے تو دوسری بے جان چیزوں کی طرح وہ بھی پتھر کی ہو جاتی ہے۔ ارتقاء کا یہ عمل جاندار اور بے جان چیزوں کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے یعنی کائناتی حرکیات اور تبدیلی کے پراسیس کو جھٹلایا جانا کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ، "ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں”۔ ایک فرد ہو، معاشرہ ہو یا پوری قوم ہو ان سب کی سچی ترقی کا راز تحقیق، ارتقاء اور امکانات کی دنیا کو دریافت کرنے میں مضمر ہے۔ سائنس کا قانونِ امکانیت (Law of Probability) اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سب اٹامک یا آزاد سطح پر الیکٹرانز کی حرکات میں سمت اور پوزیشن کا بیک وقت درست تعین کرنا ناممکن ہے۔ لھذا اگر ہم ذات باری تعالی کے سوا کسی شے کے ایک ہی وقت میں سو فیصد درست اور صحیح ہونے پر اصرار کریں گے تو کسی نہ کسی مقام پر وہ چیز ارتقائی قوانین کے لحاظ سے ضرور غلط ثابت ہو جائے گی۔
یہ ایک اصول ہے کہ ترقی کا ہم جتنا وثوق حاصل کرتے ہیں آگے چل کر ہم اتنا ہی بے وثوق ہو جاتے ہیں۔ حتمی یقینیت صرف ایک ذہنی مائنڈ سیٹ ہے جو انسان کو بے خوف کر کے اعتماد تو پیدا کرتی ہے مگر اس کا حتمی سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ حتمیت علمی ارتقاء کا ایک بتدریج عمل ہے۔
یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ سچائی کے کھوج میں نئی سچائیاں دریافت ہوتی ہیں جو انسان کو مائل بعمل رکھتی ہیں اور اس کا شوق و تجسس ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ یوں اصولا ہمیں چایئے کہ زندگی کے ہر معاملے میں ہم "حتمیت” پر بضد رہنے کی بجائے مزید معلومات حاصل کرنے کی گنجائش باقی رکھیں۔ یہ زندگی میں علمی معراج پر پہنچنے کا واحد زریعہ ہے کہ ہم جتنا زیادہ جاننے کی کوشش کریں گے ہم اپنے اندر اتنی ہی زیادہ کمی اور پیاس محسوس کریں گے۔ علم کا تو اعجاز ہی یہ ہے کہ وہ علم کی دریافت سے پہلے جہالت کی دریافت کرتا ہے۔ ایک جاہل اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ کتنا جاہل ہے کیونکہ وہ صرف اس بات پر دھیان دیتا ہے کہ اس نے سب کچھ جان لیا ہے اور دریافت کرنے کے لیئے باقی کچھ نہیں بچا ہے۔
اس کے برعکس اپنی علمی کمی کو مکمل کرنے کی جستجو کو قائم رکھنا تسلیم و رضا اور فہم و فراست کا مظہر ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا احساس نادانی ہوتا ہے جو فہم و فراست کے حامل انسان کے اندر جستجو کو مزید بڑھاتا ہے جس سے اس کے اندر عاجزی و انکسار بھی پیدا ہوتی ہے یعنی ایسی تمنا اچھی اخلاقی اقدار کو مہمیز دیتی ہے۔
واقعہ معراج کے بارے ایک عاشق رسول ﷺ، محمد غلام رسول کنگوہی فرماتے ہیں کہ: "خدا کی قسم محمد عربی ﷺ معراج پر گئے اور امت کو ساتھ لے جانے کے لیئے واپس زمین پر لوٹ آئے مگر میں اس علمی معراج پر جاتا تو کبھی واپس نہ پلٹتا”۔ یہ ایک نبی ﷺ اور امتی کی شان کا فرق ہے کہ نبی ﷺ ایسے علمی درجات کی بلندیوں پر امت کے بغیر اکیلے تشریف نہیں لے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت خود کو "نورالسموات و الارض” قرار دیتے ہیں۔ معراج النبی ﷺ کا ایک پہلو اللہ تعالٰی کے وصل کو حاصل کرنے کے لیئے ان علمی مقامات کو طے کرنا ہے جو کائنات در کائنات پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں واقعہ معراج ﷺ ہی کے حوالے سے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردوں
ایک دفعہ برطانیہ کے مشہور فلسفی اور پارلیمنٹیرئین برٹرینڈر رسل سے کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ اپنے نظریات و خیالات کی سچائی کے لیئے جان دے سکتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ "میں اپنے نظریات و خیالات کی خاطر جان نہیں دے سکتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ میرے نظریات اور خیالات غلط ہوں”۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب ہو، سیاست ہو یا عام معاشرتی رویئے ہوں علمی ارتقاء حاصل کرنے کی بجائے ہم خود کو ہی حتمی سچائی کا منبہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ترقی نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہی غیر فطری جاہلانہ سوچ ہے۔
Title Image by Chen from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔