سعودی اردو شاعرہ ڈاکٹر سمیرا عزیز
اردو زبان دنیا کی واحد زبان ہے جس میں ہر زبان کے الفاظ بآسانی سما جاتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی زبان دان کو اردو سے تھوڑا بہت شغف بھی پیدا ہو جائے تو وہ اسے اپنی ماں بولی جان کر سمجھنے اور سیکھنے لگتا ہے۔ چونکہ اردو زبان کا جنم متحدہ ہندوستان کے ایسے ماحول میں ہوا کہ آغاز میں یہ زبان مختلف النوع زبانوں کے حامل مغلیہ فوجیوں میں رابطے کے طور پر بولی جاتی تھی اسی وجہ سے شروع میں اسے "لشکری زبان” بھی کہا جاتا تھا۔ جبکہ تیرویں صدی سے اٹھارویں صدی کے آخر تک جس زبان کو آج "اردو” کے نام سے جانا جاتا ہے اسے ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی اور لاہوری زبان بھی کہا جاتا تھا۔ تب اردو زبان میں دیگر قدیم و جدید زبانوں مثلا سنسکرت، آریائی، ہندکو، عربی، فارسی اور انگریزی وغیرہ کے علاوہ درجنوں علاقائی زبانوں کے الفاظ بھی تیزی سے سماتے چلے گئے۔ آج اردو رسم الخط سے بالاتر ہو کر صرف اردو مافی ضمیر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں چینی، فرانسیسی، جاپانی اور دیگر سینکڑوں زبانوں کے الفاظ بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
مسلم عروج کے زمانے مثلا عثمانیہ اور مغلیہ عہد اپنے زمانے کی سپر طاقتیں تھیں، اور زبانوں کے بارے مقولہ مشہور ہے کہ "زبان صرف حکمران قوم کی چلتی ہے۔” لھذا چونکہ عثمانیوں کی زبان عربی اور ترکش تھی اور مغلوں کی زبان فارسی تھی لھذا ان تینوں زبانوں کے اشتراک سے اردو زبان نے جنم لیا۔ اسلام کی روشنی عربی زبان میں پھوٹی تھی۔ جب اسلام برصغیر میں پہنچا اور یہاں مسلمان مغلیہ خاندان کو بھی عروج حاصل ہوا تو عرب ممالک کے باشندوں کو بھی اردو زبان سے خصوصی دلچسپی پیدا ہوئی۔ عرب ممالک کے بہت سے طلباء ماضی اور حال میں ہندوستان اور خاص طور پر پاکستان میں کراچی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں حصول علم کے لیئے آتے رہے ہیں۔ چونکہ بھارت، پاکستان، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان وغیرہ میں بھی عوام کی اکثریت اردو زبان کو سمجھتی اور بولتی ہے اور ان ممالک کی افرادی قوت بھی عرب ممالک میں موجود تو اس سے معاملہ کرنے کے لیئے حسب ضرورت عرب ممالک کی 80فیصد سے زیادہ آبادی میں بھی اردو زبان کی بول چال موجود ہے۔
ایک عام اندازے کے مطابق اردو اور ہندی کے بولنے والوں کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ اردو زبان دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے۔
اردو لسانیات سے عربوں کی اس کرم فرمائی نے خود عربوں میں اردو زبان و ادب کے مشاہیر کو جنم دیا ہے۔ اس سے قبل اماراتی اردو شاعر ڈاکٹر فاروق العرشی کا انہی سطور میں ذکر کیا تھا۔ ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کراچی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس (MBBS) کی ڈگری لینے گئے مگر انہیں اردو شاعری سے ایسی دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ آج تک اردو شاعری کی 103 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی اردو شعر و ادب کی خدمات کے عوض سنہ 2013ء میں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے انہیں "تمغہ امتیاز” سے نوازا۔ اسی طرح سعودی عرب کی قومیت رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عزیز میرے لیئے ایک نئی دریافت ہیں جو اردو زبان کی مصنفہ اور شاعرہ ہیں جن کے نام کو گوگل کریں تو شاعری اور دیگر موضوعات پر ان کی اردو زبان میں بے شمار ویڈیوز نظر آئیں گی۔
گزشتہ دنوں سعودی حکومت نے دنیا بھر کے علماء، دانشوروں اور دیگر شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل گرمی کی وجہ سے حجاج کی بھی شہادتیں ہوئیں۔ اب سعودی عرب نے دنیا میں نیا اعزاز حاصل کیا کہ سعودی عوام کے حوالے سے ایک سروے کیا گیا تھا، جس میں عوام کی پسندیدگی کے اعتبار سے سعودی حکومت دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ گئی ہے جہاں 86فیصد شہریوں نے حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ سالانہ اعتماد انڈیکس رپورٹ ایڈلمین 2024 کی جانب سے یہ فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں سعودی عوام نے حکومت پر فیصلہ سازی اور قومی مفادات کے حصول کے حوالے سے اعتماد کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
اسی انڈیکس میں بتایا گیا ہے کہ 78 فیصد شہری کاروباری سیکٹر کے حوالے سے حکومتی کارکردگی پر اعتماد رکھتے ہیں، جبکہ دور جدید کے حوالے سے 80 فیصد شہری سعودی لیڈرز اور سائنسدانوں پر یقین رکھتے ہیں۔
تاہم 56 فیصد شہری ملک میں سرکاری اقدامات برائے ٹیکنالوجی پر حکومت پر اعتماد رکھتے ہیں۔ اس سروے میں 28 ممالک شامل تھے، جس میں سعودی عرب نے امریکہ، فرانس، جاپان، برطانیہ، جرمنی اور کوریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
ان مذکورہ موضوعات پر ڈاکٹر سمیرا عزیز کی ویڈیوز عربی زبان کی بجائے اردو زبان میں گوگل پر دیکھی جا سکتی ہیں جو اردو زبان کے لئے کسی سعودی شہری کی ایک قابل فخر کارکردگی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سمیرا عزیز کا اردو لب لہجہ اتنا نیچرل ہے کہ انہیں سنتے ہوئے لگتا ہے کہ اردو ان کی "مادری زبان” ہے۔ یہ اردو زبان و ادب، شاعری اور ثقافت کی خدمات کی صرف ایک بدیسی مثال ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ اردو کو قومی زبان قرار دینے کے باوجود اسے ابھی تک سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج نہیں کا جا سکا ہے۔۔۔!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔