عاصم بخاری کی شاعری میں طنز

عاصم بخاری کی شاعری میں طنز

اردو شعر وادب کا اگر تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے تو ہر شاعر و ادیب کا بھیہر گلے را رنگ و بوۓ دیگر است” کے مصداق ہر شاعر و ادیب کا بھی اپنا اپنا اور جدانداز پایا جاتا ہے کسی نے حقیقت نگاری کی راہ لی تو کسی نے مزاح کے سہارے اپنا مافی ضمیر بیان کرنے کی کوشش کی ۔ کسی نے اردو شاعری میں مقامی الفاظ برت کے اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ۔ کسی شاعر نے اردو مصرع کے ساتھ سرائیکی ردیف جوڑی ۔ کسی نے خوب صورتی سے شعر میں انگریزی الفاظ خوب صورتی سے برت کر اپنی بات قاری تک پہنچانے کی سعی کی ۔
اگر عاصم بخاری کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جاۓ تو ان کی شاعری میں طنز کا نشتر بہ غرض ِاصلاح ِ سماج بڑا کامیاب ملتا ہے ۔ ایسا یہ شعوری طور پر ہرگز نہیں کرتے بلکہ یہ قدرتی و فطرتی ودیعت لگتی ہے ۔ اس میں ذرا برابر ان کا تصنع نہیں ۔بالکل غیر محسوس انداز سے حادثے اور واقعے کا مشاہدہ شعر کا بڑی خوب صورتی کے ساتھ طنزیہ پہلو دھارتے ہوئے نشاندہی کا تیر اپنے ہدف پہ جا لگتا ہے ۔ یہی ایک فن کار کا فرض ِ منصبی ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا قلمی جہاد کرکے ادب میں اپنا حصہ ڈال جاۓ ۔

عاصم بخاری کی شاعری میں طنز


آئے ان کی شاعری کے طنزیہ پہلو کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
شعر دیکھیۓ ۔

پاس تلوار تو ، نہیں میرے
میں قلم سے جہاد کرتا ہوں

ان کے شعری نظریے کی غمازی کرتا ایک شعر

اصلاح کی خاطر ہی قلم اٹھتا ہے اپنا
مقصود نہ تضحیک نہ تحقیر کسی کی

ان کایہی شعری مزاج ان کی منفرد پہچان بناتا ہے۔۔ان کے پاؤں مٹی میں ہیں۔قدرت نے انھیں انسانوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی ناداریوں محرمیوں کو چہرے سے پڑھ لینے کی صلاحیت عنایت کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دل مخلوق ِ خدا کی دھڑکنوں کی فریادوں کی آواز بن جاتا ہے ۔

وہ تو پھیلائے ہاتھ بیٹھا ہے
یہ نہ پوچھو کہ کب نہیں لیتا
پہلے اک آدھ کوئی لیتا تھا
رشوت اک آدھ اب نہیں لیتا

عاصم بخاری اپنے طنز کا موضوع سماج کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو بناتے ہیں ۔منافقانہ طرز ِ عمل پر کچھ ایسے چوٹ کرتے ہیں ۔ قطعہ دیکھیے ۔

جی میں جو آئے جیسے تیسے ہی
سال بھر کیا تلافی ، لوگوں سے
وہ”شب ِ قدر” ہی فقط عاصم
مانگتا ہے معافی لوگوں سے

ایک اور معاشرتی رویے پہ کچھ ایسے ہلا پھلکا اور غیر محسوس انداز کا طنز جو بظاہر مزاح محسوس ہوتا ہے ان کے ہاں بڑی روانی سے ملتا ہے ۔
قطعہ

ہے آئینہ تمہاری یہ اخلاقیات کا
یہ بات اس فقیر کی دل کو بڑی لگی
کولر سے پانی پیتے وقت سوچتے نہیں
کیا جرم ہے گلاس کا کیوں ہتھکڑی لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اثر کی قبولیت کے حوالے سے قطعہ

کچھ اثر کیا لیا ماہ ِ رمضان سے
روزے رکھ کے خرافات میں کھو گئے
عید کے روز کے آنے کی دیر تھی
جیسے تھے ویسے ہی لوگ سب ہو گئے

عاصم بخاری کا بالکل واضح نظریہ ء شعر وماعلینا الا البلاغ کے مفہوم کی صورت قطعہ پیش ِ خدمت ہے

کوئی غافل نہ رہ جاۓ بخاری
یمارا کام ہے عاصم ، جگانا
کوئی مانے نہ مانے اس کی مرضی
ہمارا کام ہے عاصم ، بتانا
معاشرتی رویوں پر کڑی تنقید اور روزے اور رمضان کے فلسفے کی تفہیم کے حوالے سے کس چابکدستی سے طنز کا نشتر چلاتے دکھائی دیتے ہیں ۔

عید کے روز بھی مل کے مل نہ سکے
بندگی میں وہ کیسی ، کمی رہ گئی
تیس روزے بھی رمضاں کے رکھے مگر
مَیل نفرت کی دل پر جمی رہ گئی

شاعر ِ موصوف کا مشاہدہ و تجربہ وسیع ہونے کے باعث ان کے شعری موضوعات میں بھی خاصی وسعت پائی جاتی ہے ۔ ان کے ہاں تنگ دامنی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ سماج میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اور تبدیلی چاہے مثبت ہو یا منفی جس کا اطلاق آج اور کل ، انسان اور انسانیت پر ہو ۔ ان کے قلم کو جنبش اور حرکت میں لے آتی ہے ۔ یہ یک طرفہ سوچتے دکھائی نہیں دیتے ۔ روشن اور تاریک ہر دو پہلووں پر اپنے شعر طنز کے راستے مصروف اصلاح ء سماج دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی بندش کی سادگی اور تراکیب کی ندرت کا کمال ہے کہ کڑوی سے کڑوی بات بھی قاری خندہ پیشانی سے نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ آئندہ اس نشان دہی کے مطابق خود کو ڈھالتا بھی دکھائی دیتا ہے ۔ جو کہ ان کی شعری کامیابی پر دال ہے ۔ چند قطعات مزید بہ طور ثبوت و دلیل و نمونہ ملاحظہ ہوں

غیر محسوس طور ، کرتی ہے
ضرب اخلاص پر ، بڑی کاری
پائی جاتی ہے کتنے رنگوں میں
ایک بیماری یہ ، ریا کاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سڑک کی طرف رخ تھریشر کا یارو
پتہ دے رہا ہے ، تری تربیت کا
کبھی دوسروں کو نہ تکلیف دے گا
یہی تو ہے پیمانہ ، انسانیت کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بات رزق ِ حلال ، کی ہو تو
بولتے وہ تھکا ، نہیں کرتا
نفلی روزے بھی رکھتا ہے لیکن
فرض اپنا ادا ، نہیں کرتا
۔۔۔۔۔۔
دور ہے گھر ، یہاں سے بیٹی کا
جان کی میں امان ، گر پاؤں
پوچھتا ہے یہ باپ ، بیٹے سے
ہو اجازت تو شب ، ٹھہر جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی بیٹا ہے آپ ، کا اپنا
ماں جی بھائی کے پاس جاؤ اب
بیوی بچوں کا ہے ، تقاضا یہ
اور مجھ کو نہ آزماؤ اب

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

زہرہ بی بی، ماہ جیٹھ کا میلہ  اور بارات کا رواج

پیر مئی 8 , 2023
سید سالار مسعود غازیؒ کی درگاہ جو شمالی ہندوستان کی سب سے قدیم اور بڑی درگاہ ہے جس کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے
زہرہ بی بی، ماہ جیٹھ کا میلہ  اور بارات کا رواج

مزید دلچسپ تحریریں