صریر خامہ
تحریر ۔فائزہ بشارت
سابقہ طالبہ ڈھوک بڑھکی۔پنڈی گھیب
وہ جنون کے اولین دن تھے ۔ نیلی روشنائی پپوٹوں سے ہوتی ذہن کو منور کرتی تھی ۔ کتب کے اوراق کی خوشبو نتھنوں میں گھسے جاتی تھی۔یہ ہماری تعلیم کے آغاز کے دن تھے ۔ ٹپکتے چھت والا ایک کمرہ ، دیواروں سے اکھڑتا مٹی کا لیپ ، حبس زدہ ماحول _ یہ ہمارا مکتب تھا جس میں میرے سمیت میرے کئی بچے زیر تعلیم تھے ۔ اسکول کی کوئی باقاعدہ عمارت نہ تھی سو ان کھنڈروں سے ہی ہمارے خوبیداہ خیالوں کی بیداری کا آغاز ہوا ۔ کبھی اگر سحاب آسمان کو لپیٹ میں لیتے تو ہماری استانی صاحبہ سوچنے لگ جاتیں تھیں کہ اگر باران رحمت کا نزول ہوا تو اس جابجا ٹپکتی چھت کا کیا درماں کروں گی ؟ کڑکتی گرم دوپہریں اور لو ، ہم اور ہمارے اساتذہ ایک چھپر میں گزارتے تھے ۔میرے ذہن میں اب تک میری استانی کے ماتھے سے ٹپکتے پسینے کے قطرے ویسے ہی تروتازہ ہیں گویا کل کی بات ہو ۔ اس عمارت کا ہمارے اساتذہ کرایہ دیا کرتے تھے جو کسی کو مفت میں بھی عنایت کی جائے تو کوئی ایک دن نہ گزارے ۔ تعلیمی سفر میں بہت سی ہجرتیں ہمارا مقدر تھیں ۔ کبھی ایک چھپر سے دوسرے میں تو کبھی دوسرے کھنڈر سے تیسرے میں ۔ ان ہجرتوں کا پس منظر گاوں کے باسیوں کا وہ لسانی تطاول ہوتا تھا جو ہمارے اساتذہ کا سہنا پڑتا تھا ۔ لیکن
♡یہ ہجوم زندگی ہے ، کنکریاں بھی آئیں گی
ہنس کے خون پی جانا ، ظرف کو بڑا رکھنا
چار پانچ جگہ کی نقل مکانی کے بعد بالآخر گاوں کے ایک بزرگ نے اسکول کی عمارت کے لیے زمین عطیہ کی ۔ اسکول کی عمارت تو تعمیر ہوگئی مگر جنون کے اس دو آتشے سفر میں ابھی بہت سی سنگ باری ہونی تھی ۔ بہ ہمراہ اساتذہ جب ہم اپنے اسکول میں پہنچے تو مٹی کے اونچے ٹیکوں نے ہمارا استقبال کیا اور پانی کی قلت نے ہمارا ماتھا چوما ۔ نہ پینے کا پانی دستیاب تھا ، نہ سایہ دار درخت ، نہ دیواروں پہ بیل بوٹےاور نہ جھولے جو ہم سب نے اپنے تصوراتی اسکول میں سوچ رکھے تھے ۔ پھر ہمارے اساتذہ نے دوڑ دھوپ کی ۔ صنف نازک ہوتے ہوئے ہماری استانی نے سر پہ پگڑی باندھی ۔ معاشرے کے مغلوب کردار یعنی کے مرد کا روپ دھار کر عملی میدان میں نکلیں کیوں کہ ابھی ہمارے طفلانہ ذہن کو مزید درشتیوں سے ہم کنار کرنا باقی تھا ۔ وہ ہمارے جوتوں پہ پڑی دھول کو شفقت سے دیکھا کرتی تھیں ۔ جب ہم تفریح کے بعد ہانپتے ہوئے ایک دوسرے سے پانی مانگتے تو ان کی نظر پانی کی گرم بوتلوں میں ابلتے پانی سے آر پار ہو رہی ہوتی تھی۔ اس جدوجہد میں ہم سب ساتھ تھے ۔ وہ ہماری مسیحا تھیں اور ہم ان کے خضر ۔ جیسے تیسے کر کے سرکار سے فنڈز کی رقم لی گئی ۔ صحن کو پختہ کرایا گیا۔ ہماری استانی نے اپنے ہاتھوں سے کیاریاں بنائیں پھر ان میں پودے لگائے ۔ صحن کو گملوں سے مزین کیا گیا ۔ ٹاٹ کی جگہ ہمارے بیٹھنے لیے کرسیاں اور بینچ لائے گئے ۔ دیواروں پہ خوبصوت نقش نفاری کی گئی ۔ جھولوں کا انتظام کیا گیا ۔ صاف پانی کا انتظام ہوا ۔زیادہ کام ہمارے اساتذہ نے خود کیا ۔ کچھ کاموں میں ہم اور سرکار کا فنڈ آٹے میں نمک برابر شامل تھے ۔اپنی اجرت سے زیادہ خرچ انہوں نے اسکول کے درودیوار پہ کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکول دیکھنے والوں کو دم بخود کرنے کگا ۔ لیکن یہ کوئی آسان سفر نہ تھا ۔ یہ ایک دو دن کی محنت نہ تھی ۔ یہ سالوں پہ محیط ایک داستان ہے ۔ یہ مراحل ہیں ۔ بہت طویل مراحل ۔
کتنی ہی دفعہ ہماری استانی نے خود کو خود تھپکی لگائی ہو گی ۔ کتنی ہی دفعہ انہوں نے اپنے کندھوں پہ خود سر رکھا ہو گا ۔ کتنی ہی ایسی خندقیں ہونگیں کہ آنکھ بند کر کےبس قدم دھر دیا ہو گا ۔ کئی ایسے مناظر ہونگے جو ان کے ذہن کے پردوں میں اب تک ابھرتے ہونگے ۔ کتنی ہی دفعہ ان کی آنکھیں چھلکی ہونگیں ۔ کتنے ہی ایسے لمحے ہونگے جب اپنی انگشت سے رخساروں کی جانب آتے قطرے صاف کیے ہونگے ۔ کئی دفعہ ہمت ٹوٹی ہوں گی تو ہمارے ننھے ہاتھوں سے بیس روپے فیس وصول کرتے ہوئے دوبارہ ہمت مجتمع کہ ہوگی ۔ قارئین کو شاید یہ لفاظی لگے لیکن
* بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم سنائیں تو کیا تماشہ ہو ؟
ابھی ان اسکولوں کی نجکاری ہو رہی ہے ۔ یہ ایک اسکول کی کہانی نہیں ، کم و بیش بہت سے مکاتب اور اساتذہ کی آپ بیتی ہے ۔ حکومت کے ایوانوں میں تو بس درودیوار کا ٹھیکہ لگ رہا ہے لیکن اسمبلی میں براجمان بیوروکریٹس کو کیا معلوم کہ یہ عمارتیں نہیں داستانیں ہیں ۔ سیمنٹ اینٹ کی دیواریں نہیں ہمارے اساتذہ کی جوانیاں ہیں ۔ انہوں نے فقط اقتدار کی بدبودار ہولی کھیلی ہے مگر کچے صحن سے اڑتی گرد کا انہیں کیا ادراک ؟ ان کے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ ہے مگرانہوں نے کسی صنف نازک کو الہ دین بنتےنہیں دیکھا ۔ ہم نے دیکھا ہے ہماری طفلانہ آنکھوں اور کچے حافظے میں سب محفوظ ہے ۔
بجائے اس کے کہ ان مکاتب میں نئے اساتذہ تعینات کیے جاتے ، مزید مرمت کی جاتی ، بقا کے لیے فنڈز دیے جاتے ۔ ان کی بھی سستے داموں بولیاں لگائی جا رہی ہیں ۔ سونے پہ سہاگہ یہ بات ہے کہ "یہ نجکاری ملک کے بجٹ پہ پڑتے بوجھ کو کم کرے گی ” مگر *من خوب می شناسم پیران پارسارا*
ان چٹانوں سے ابھی پھوٹتے چشمے پیارے
تو نے دیکھے ہیں نہیں میرے کرشمے پیارے
یہ تو خود پہ ہے بیتی تو احساس ہوا
ویسے سن رکھے تھے تیرے رحم کے چرچے پیارے
کیسے میں نے اک جنوں کی ہولی میں اڑائے
وہ میری عمر سجیلی ، میرے لمحے پیارے
جیسے تو نے انہیں بازار میں نیلام کیا
اتنے ارزاں تو نہ تھے پیشانی کے قطرے پیارے !!
Title Image by Designer
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔