سرائیکی حسینی ڈوہڑہ (ٹور تے پندھ)
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
مرید عارف نے زمانہء طالبِ علمی سے شعر گوئی کا آغاز کیا بعد ازاں نثر کی جانب راغب ہوئے ۔ جس سے دو کتابیں مارکیٹ میں آئیں ایک ٫٫ سرائیکی مرثیے وچ نثر ،، اور دوسری ٫٫ کھرے کھر ،، یہ دونوں کتابیں تحقیقی و تنقیدی ہیں ۔
اللّٰہ پاک نے مرید عارف کو جہاں خوبصورت خدو خال سے نوازا ہے وہاں ایک ہمدرد دل رکھنے والا انسان اور پُر خلوص و سچے جذبے رکھنے والا ایک ایسا انسان بنایا جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتا ہے ایسے انسان کا وجود اللّٰہ پاک کی طرف سے ایک خاص نعمت ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ استفادہ کرتے رہتے ہیں دوسرے لوگوں کو اُن کا مقام دینا صرف زبانی کلامی ہی نہیں عملی طور پر پورا اترتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔
سرائیکی ڈوہڑہ سرائیکی ادب میں ایک خوبصورت صنفِ سخن ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نئے لکھنے والے سرائیکی شعراء کرام نے اپنی تخلیق کا آغاز ڈوہڑے سے ہی کیا ہے ڈوہڑہ کُل چار سطروں پر مشتمل ہوتا ہے پہلی سطر سے ڈوہڑہ گو اپنے خیال کا آغاز تعارفی صورت میں کرتا ہے کہ وہ کیا کہنہ چاہتا ہے اُس کے بعد دوسری سطر میں اپنے اُسی خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے تمہید کی شکل اختیار کر جاتا ہے تیسری سطر میں بات پُر لطف مقام تک پہنچ جاتی ہے چوتھی اور آخری سطر اتنی زور دار ہوتی ہے کہ سننے والا داد دیئے بغیر رہ نہیں سکتا اس کو چھوٹی سی نظم بھی کہا جاسکتا ہے ڈوہڑہ غزل کی طرح تمام تر خیالات اپنے اندر سموع سکتا ہے اور سمو بھی رہا ہے مثال کے طور پر راقم الحروف (مقبول ذکی مقبول) کا ایک ڈوہڑہ ملاحظہ فرمائیں ۔
ہر وقت کھلائے رحمٰن دا ، در کوئی جہڑے وقت وی آوے
تکبیر آواز بلند کر کے وت حمد خدا سنواوے
سب کیتیاں کوں کر معاف ڈیندائے جو سر دل نال جھکاوے
مقبول رکوع تے سجدے وچ بیٹھا خالق نال الاوے
زیرِ نظر کتاب سرائیکی حسینی ڈوہڑہ ( ٹور تے پندھ) مرید عارف کا ایم فل کا مقالہ ہے جو اس وقت کتاب کی شکل میں مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔ جس کا
پہلا باب سرائیکی مرثیے وچ حسینی ڈوہڑے کی روایت اور سرائیکی ڈوہڑے کی روایت
دوسرا باب سرائیکی حسینی ڈوہڑے کا پہلا دور (اول سے لے کر 1880ء تک)
تیسرا باب سرائیکی حسینی ڈوہڑے کا دوسرا دور (1880ء تا 1930ء تک)
چوتھا باب سرائیکی ڈوہڑے کا تیسرا دور (1930ء تا 2015ء)
ان تمام تر باب میں مرید عارف کی محنت و لگن اور محبت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے سرائیکی حسینی ڈوہڑہ کی صورت تحقیق و تنقید ایک کتاب کی صورت میں وجود میں آجانا یہ بھی بڑے اعزاز کی بات ہے مرید عارف ایک باصلاحیت نوجوان ہے اس کی تحریر میں بہت ساری خوبیاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ سرائیکی زبان میں جو مہارت رکھتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر مرید حسین المعروف مرید عارف ( اسٹنٹ پروفیسرگریجویٹ کالج فاصل پور ضلع راجن پور) میں تعینات ہیں سرائیکی زبان پر ملکہ رکھتے ہیں تحریر میں روانی کے ساتھ ساتھ الفاظ قاری کے ذہن میں خود بخود آ جاتے ہیں ۔ جو علمی و ادبی تحقیق سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے یہ لطف بھی پُر مسرت بنتا جاتا ہے اور ایسے معروف ڈوہڑے و کلام جب سامنے آتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ کلام کِس شاعر کا ہے علم میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور مسرت بھی ہوتی ہے ۔
ڈوہڑہ گو شعرا کی تاریخ پیدائش ولدیت فن و شخصیت پر مختصر مگر جامع انداز میں تحقیق و تنقیدی جائزہ حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔ سید زمان شاہ شیرازی سے لے کر جاوید آصف تک دوسو کے قریب ڈوہڑہ گو شعراءکرام کو شامل کیا گیا ہے 311 صفحات پر مشتمل کتاب میں پیشِ لفظ مرید عارف نے خود لکھا ہے اور بیک ٹائٹل ڈاکٹر محمد ممتاز خان بلوچ ( شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) نے لکھا ہے ایسی کتاب کو ہر لائبریری میں موجود ہونا چاہیے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔