خزاں کا موسم تھا راوی بڑی دھیمی اور باوقار رفتار سے بہتا جنوب کی طرف رواں دواں تھا۔ لیکن راوی کے پل پر وہی لوگوں کا اژدھام۔ گھڑ سوار، تانگے، بیل گاڑیاں، ہاتھی والے اور پیدل لوگ آ جا رہے تھے۔ پل کے لاہور والے سرے پر ایک مجذوب بیٹھا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
روشن چہرے، کشادہ پیشانی اور سرمئی زلفوں والے ایک شخص نے جب پل پر قدم رکھا تو مجذوب کی نگاہیں اس پر جم گئیں، اس کی رفتار اور چال ڈھال کو مجذوب نے بہت غور سے دیکھا پھر مسکرایا ایک نظر لاہور کی جانب دیکھا، ایک نظر راوی میں ڈوبنے کے قریب سورج کو دیکھا اور پھر سے نگاہیں اس روشن چہرہ شخص پر پر ٹکا دیں اور تب اس نے اشارے سے اس شخص کو بلایا ، وہ بندہ خدا انتہائی ادب سے سے مجذوب کے قریب بیٹھ گیا اور کہا : جی سرکار حکم فرمائیں تب مجذوب بولا ‘ معین الدین میں چالیس برس سے یہاں بیٹھا ہوں۔ اور تب سےاب تک یہاں سے ڈیڑھ آدمی گذرا ہے’۔ مخاطب نے جب اپنا نام سنا تو یقین ہوگیا کہ منزل قریب ہے۔ ادب سے گذارش کی کہ سرکار جب آپ نے اتنی مہربانی کی ہے کہ گنتی بتا دی اگر تعارف بھی کرا دیں تو احسان ہوگا۔ جس پل سے روزانہ ہزاروں گذرتے ہیں وہاں چالیس برس میں جو ڈیڑھ ہے کون ہے کہاں ہے۔ اس پر مجذوب نے کہا ‘ سُن معین الدین جو پورا تھا وہ علی ہجویری تھا اور جو آدھا ہے وہ تُو ہے۔ جا اس پورے کے قدموں میں بیٹھ جا تو بھی پورا ہو جائیگا ‘۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ وہاں سے داتا علی ھجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر تشریف لے گئے اور معتکف ہوئے۔ چلہ پورا ہونے پر آپ نے یہ شعر کہا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
مآخذ :حکایات اولیاء
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔