سائبانِ شاکر
حریمِ دل و جان کی عفت انسان کو ہمیشہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک رکھتی ہے اور آپ کی اہل بیت سے مودت فکری عفت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور یہ آیہ ٕ تطہیر سے مملو ہوتی ہے نجاست کہیں سے ہو کسی کی بھی ہو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک بھٹک بھی نہیں سکتی انسان قدسی صفات کا مالک ہو تو گلستانِ مدحت میں داخل ہوتا ہے حضور ﷺ کی مدحت کی بہت سارے پہلو ہیں یہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے اور شاعری میں بھی ہو سکتی ہے سب سے پہلی مدحت رب کریم نے قرآن میں کی ہے اور آپ ﷺ کے ذکر کو
ورفعنا لک ذکرک
کی وہ سند عطا کی ہے جو جہانِ رنگ و بو میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی
قرآن حکیم کے بعد بہت سارے انسان تطہیرِ قلب کے ساتھ اس وادی ٕ گل میں اترے اور انہوں نے سرکار سے اپنے عشق و وارفتگی کا اظہار کیا
سید شاکر القادری چشتی نظامی بھی ایسی شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ثنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بنایا اور گنبدِ خضرٰی کی سبز روشنی سے مستنیر ہوٸے فروغِ نعت ان کا حوالہ ہے اسی کے لیے جیتے ہیں اسی پر مرتے ہیں میری جتنی ان سے ملاقاتیں ہوٸیں میں نے ان کو انتہائی شفیق قدردان اور مہمان نواز پایا جہاں تک ان کی ادب دوستی کا تعلق ہے تو یہ بہت سارے شعرا کے استاد ہیں نثر ان سے سیکھنے کو ملتی ہے شاعری میں ان کے الفاظ سکونِ قلب و روح کا سماں پیش کرتے ہیں آپ قادر الکلام شاعر ہیں جنہیں فارسی زبان پر مکمل عبور ہے جتنی کتابوں کی تقریظ لکھ چکے ہیں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ خوبصورت الفاظ کے بادشاہ ہیں اور اپنا سینہ علم سے منور رکھتے ہیں دھنک افق ستارے چاند سورج قفس قوسِ قزح اور موجہ ٕ گل غزل میں لکھنا آسان ہے لیکن نعت میں انہیں برتنا کوئی آپ سے سیکھے آپ کے کلام میں فکری عفت اور اسلوبیاتی صباحت آپ کے قادر الکلام ہونے کی واضح دلیل ہے لفظ لفظ عود و عنبر سے دھو کر لکھتے ہیں آپ کے لفظوں سے خوشبو آتی ہے جہاں آپ کی شاعری میں مشکل الفاظ ہیں وہاں سہل ممتنع بھی ہر نعت میں جگمگا رہا ہوتا ہے آپ فارسی کی جو تضمین کرتے ہیں وہ بھی قابل داد ہوتی ہے مجھے پہلا نعتیہ مجموعہ "چراغ” اور اب "ساٸبان” بہت شفقت سے عطا کیا ہے ساٸبان کا مقدمہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے لکھا ہے جو اپنی مثال آپ ہیں اور کتاب کا فلیپ علامہ خالد رومی نظامی اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے لکھا ہے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے آپ کو جدید اردو نعت کے قافلہ سالاروں میں شامل کیا ہے
سید شاکر القادری چشتی نظامی نعت کے ساتھ حمد بھی بہت خوب لکھتے ہیں ان کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل کا اندازہ ان فرخندہ بخت اشعار میں جھلکتا نظر آتا ہے
الہی صوت و صدا میں ہیں زمزمے تیرے
حروف و لفظ میں احساس کے دیے تیرے
شفق ہو، قوسِ قزح ہو کہ موجہ ٕ گل ہو
تمام عکس ہیں تیرے، سب آئینے تیرے
ضمیرِ گل میں ہمکتی ہوٸی مہک تیری
افق کے بام پہ رنگوں کے قافلے تیرے
چراغِ نعت جو رکھا دریچہ ٕ دل میں
چمک اٹھے کئی نادیدہ زاویے تیرے
فرازِ طور پہ موسٰی کے ساتھ ستر تھے
تو کربلا میں بہتر گواہ تھے تیرے
ویسے تو ہر شعر ہی لکھنے اور بحث کرنے کے قابل ہے لیکن ہم چیدہ چیدہ اشعار کا ذکرِ جمیل کریں گے حرف و صوت کی گہرائی اور گیرائی آپ کی حمد میں واضح نظر آتی ہے آپ کی حمد پڑھتے وقت مجھے کٸی بار لگا کہ میں نعت کی دنیا میں گھوم رہا ہوں کیونکہ حمد میں سرکار ﷺ کا ذکرِ جمیل احسن انداز سے برتتے ہیں جو حمد کے حسن کو مزید بڑھا دیتا ہے اور انسان وفورِ شوق میں بہتا جاتا ہے
سید شاکر القادری چشتی نظامی اپنی شاعری میں دھنک رنگ بکھیرتے ہیں حسنِ صوت اِن کی شگفتہ پوروں سےنکلتا ہوا اشعار کے سینے میں پیوست ہو جاتا ہے آپ کی شاعری تشبیہات تلمیحات اور استعارات کے پرتو سے مہکتی آپ کے دل کی آواز ہے حسنِ حمد میں چند مزید اشعار کی دلکشی اور رعنائی ملاحظہ کیجیے:۔
یا رب کوٸی دریچہ کوئی در دکھائی دے
ظلمت زدوں کو ماہِ منور دکھائی دے
تسنیم بر سبیل ثنا ہو مجھے عطا
بہرِ درود موجہ ٕ کوثر دکھائی دے
کس کے نقوشِ پا کا اثر ہے کہ چارسو
ذروں میں آفتاب کا منظر دکھائی دے
رمزِ ” حسین منی انا منہ” کھل گئی
صحرا میں لخت لخت پیمبر دکھائی دے
یا رب یہ التجا ہے کہ شاکر تمام عمر
مصروفِ مدحِ سید و سرور دکھائی دے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔