"چاندنی سے دیا جلاتے ہیں” کا مصنف خالد عنبر بیزار اٹک کا ” ساغر صدیقی ” ہے جسے زمانے کی بے اعتناٸیوں اور وقت کے طوفانوں نے پہلے زخمی کیا اور بعد میں اپاہج کر کے ویل چیئر پر بٹھا دیا ہے۔ ٢٠٠٠ کی دہائی میں اردو ادب کے افق پر اٹھتا ہوا یہ ستارہ ایسا روشن ہوا کہ ادبی حلقوں میں ہلچل مچ گٸی ۔ اٹک میں عطا ٕ اللہ خان عیسٰی خیلوی کی ادبی تنظیم "سانول سنگت” کی ذیلی شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا اور طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کی گئی جن میں خالد بیزار کا لب و لہجہ سب سے جداگانہ تھا۔ لہجے کی شائستگی اس کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھی ۔ خالد عنبر بیزار شعبہ ٕ درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اردو ادب کا دلدادہ تھا۔ مطالعہ اسکے رگ و پے میں شامل تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ” آغاز عروج پر ہی اسے پاؤں پر معمولی چوٹ لگی اور زخم نا سور بن گیا۔ مرض اور معاشرے کی بے حسی جیت گئی اور غربت ہار گئی۔ مناسب علاج نہ کروا سکا تو ناسور پھیل گیا ڈاکٹروں سے مدد لی تو انہوں نے ٹانگ ہی کاٹ دی۔ ٹانگ کٹی تو حساس دل ٹوٹ گیا کیونکہ بوڑھے ماں باپ کا سہارا تھا۔ جب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو دل و دماغ کہاں بس میں رہتے ہیں۔ یہی ہوا خالد عنبر بیزار بھی حوش و حواس کھو بیٹھا اور ویل چیئر پر غربت و افلاس نے ایسا بٹھایا کہ اب تک نہ اٹھ سکا۔
” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ کے مصداق خالد عنبر بیزار کا کوئی ادیب دوست اسی تاک میں بیٹھا تھا موقع ملتے ہی وہ خالد عنبر بیزار کے پاس آیا اور اس کے کلام شائع کرانے کی غرض سے مانگا اور لے گیا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
” چاندنی سے دیا جلاتے ہیں“ میں شاعری چھپی ہے وہ کہیں نہ کہیں کیسٹوں میں یا اخبارات میں محفوظ تھی جس کو اکٹھا کر کے ادب دوست شخصیات نے مل کر شائع کرایا جن میں ملک ممریز خان، ملک محمد عثمان، معروف کالم نگار شہزاد حسین بھٹی ، حافظ عبدالحمید ، نعیم شاہ ایڈو وکیٹ ، نوید احمد، محمود اے غزنوی، فیاض احمد قریشی، ناصر بنگش، ڈاکٹر پرویز اقبال اور ڈاکٹر فدا حسین شامل ہیں۔مجھے یقین ہے کہ خالد عنبر بیزار کی کتاب اکادمی ادیبات تک پہنچ گئی ہوگی اور انہوں نے خالد عنبر بیزار کا وظیفہ مقرر کر دیا ہوگا ۔ میں جانتاہوں کہ کئی امیر ادیب اس اکادمی سے وظائف پاکر فیض یاب ہو رہے ہیں۔اور اگر خالد عنبر بیزار کا وظیفہ شروع نہیں ہوا تو اٹک کے ادیب گزارش کر رہے ہیں کہ اکادمی ادبیات خالد عنبر بیزار کی مالی مدد کرے اور اس کا مناسب علاج بھی کرائے یا اکادمی کے علاوہ جو افراد یہ تبصرہ پڑھیں وہ اٹک کے ”ساغر
صدیقی“ خالد عنبر بیزار کی مالی معاونت کرکے گلستان ادب کے اس مرجھائے پھول کی پزیرائی فرمائیں۔ خالق کائنات کی محبت سے سرشار خالد عنبر بیزار کے نگار خانہ شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل ملاحظہ فرمائیے:۔
گلاب شاخوں پہ رقصاں، بہار، باد خزاں
ہر ایک رت کا نظارہ ، خدا کے ہاتھ میں ہے
فلک، یہ چاند، ستارے تمام اس کے مطیع
زمیں کی ناو ، کنارا، خدا کے ہاتھ میں ہے
کوٸی بھی انسان جو رب کے عشق میں گرفتار ہو تو یقینًا وہ محبوب رب جہاں، قاسم علم و عرفاں ، راحت قلوب عاشقاں، سرور کشوراں، راہبر انس و جاں، قرار بے قراراں اور غم گسار دل فگاراں حضرت محمدﷺ کے عشق سے کیسے دور رہ سکتا ہے۔ حضورﷺ کا تو نام ہی اپنے اندر مدح و ثنا ٕ کے آفاق سمیٹے ہوئے ہے اسی اسم مبارک نے خالد عنبر بیزار کو بھی قلبی راحت سے نوازا ہے اور درج زیل فرخندہ بخت اشعار نے اس کے قلب پر دستک دی:۔
تری ذات کا وسیلہ ہے خدا تلک رسائی
وہ خدا کا بھی نہیں ہے جو حضورﷺ کا نہیں ہے
عباسؑ ، قاسمؑ ، اصغرؑ ، حسن ؑ، حسینؑ تیرے ترے گھر سا معتبر بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔
خالد عنبر بیزار کے کلام میں سلاست ، روانی ، وارفتگی اور برجستگی پاٸی جاتی ہے وہ غزلیہ آہنگ رکھنے والا شاعر ہے جو محسوس کرتا ہے وہ قلم کی نوک سے آشکار کردیتا ہے جس کی جمالیاتی چمک قارٸین کے وجدانی ذوق کو جلا بخشتی ہے۔
خوشی کے موقع پر پھر فطرت کا دیا ہوا غم اسے مخمور معنویت سے آشکار کر دیتا ہے جس کی تابانی اشعار میں اس طرح نظر آتی ہے: ۔
گھر آتے ہی چھلک پڑے برسات کی طرح
آنسو جو ہم نے تجھ سے چھپاۓ تھے عید پر رسمًا بھی ہم سے ہاتھ بڑھا کر نہ وہ ملا
ظالم نے یہ ستم بھی تو ڈھاۓ عید پر
خالد عنبر بیزار اہل دل بھی ہے اور اہل نظر بھی اسی لیے وہ ہر تیر کھا کر مسکراتا ہے۔ حساس اتنا کہ باتوں کے نشتر بھی اسے گھاٸل کر دیتے ہیں اور وہ بے ساختہ اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے:۔
غم کے ماحول سے مانوس ہوا ہوں اتنا
اب خوشی مجھ کو طبیعت پہ گراں لگتی ہے
دشمن جاں کے نشانے سے یہ جانا میں نے
اس نے جو کھینچی وہ یاروں کی کماں لگتی ہے
حسن اور محبت نگار خانہ ٕ دنیا کے دو خوبصورت پہلو ہیں جن سے عشق کشید کر کے شاعر غزل لکھتے ہیں ۔
خالد عنبر بیزار نے حسن بھی دیکھا ہے اور عشق بھی کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے پھولوں کی سیج نہ ملی وہ کانٹوں سے زخمی ہوتا رہا۔پھول اس پر ہنستے رہے اور زخمی ہونٹوں سے عشق کی جولانیوں کو محسوس کرتا رہا۔ ان اشعار میں حسن و عشق کا سنگم کس طرح بیان کرتا ہے ذرا دیکھیے:۔
کب کوٸی پورا ہوا عہد وفا دونوں سے
زندگی اور محبت ہے خفا دونوں سے
حسن اور عشق میں تفریق نہ کیجیۓ صاحب
ہے محبت کی فضاوں کی بقا دونوں سے
خالد عنبر بیزار حسن مجازی کے گلشن میں جا کر بے تاب بھی ہوتا ہے اور اس کی رعناٸی سے جھوم کر کیا لکھتا ہے۔ ملاحظہ فرمایے;۔
مل کر خوش ادا، دفعتاً گر پڑے
آسماں پر زمیں، ایک انگڑاٸی سے
پھول ہر شاخ سے گر پڑے جھوم کر
تیری ظالم حسیں ، ایک انگڑاٸی سے
عشق دلوں میں گداز بھر دیتا ہے محبوب کا خیال جاوداں اضطراب کو بڑھاتا ہے تو شاعر کے خیالات دھنک رنگ اختیار کرتے ہیں اور یہ دھنک چارسو دکھاٸی دیتی ہے تو زندگی اس سے روشنی مستعار لیتی ہے بلاغت شعروں میں ایسے جھلملانے لگتی ہے۔
ہاں مگر اس کے کرم سے لہو روتا ہوں میں عشق کا نغمہ تو گایا زندگی کے ساز پر
جب دیا گھر میں میسر ہو نہ کوٸی دوستو
دل جلا لیتے ہیں اپنا شام کے آغاز پر
خالد عنبر بیزار دکھوں کی کالی آندھی میں گھر جاتا ہےاسے وقت کے ظالم تھپیڑے جینے نہیں دیتے اپنوں کی بے وفاٸی کا ایک لمبا سراب ہے اور اس کی پیاس ہے وہ عالم تشنگی میں اس سراب میں بے نام راہی کی طرح سرگرداں ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ کوٸی اسے اپنا مل جاٸے لیکن سرابِ زیست میں تو صرف تشنگی ہی ملتی ہے خالد عنبر بیزار کی بھی یہی تشنگی ہی میراث ہے اس تشنگی کے کھنڈر میں ٹوٹے پھوٹے بے وفاٸی کے محلات ہیں جن میں بھٹک بھٹک کر تنہاٸی اس کو ڈسنے لگی ہے۔ وہ بے اختیار جدت خیال کے ساتھ اس لطیف صورت کو کاغذ کی لطیف صورت پر نقش کر دیتا ہے۔
ہمیں بھی مانگ لے کوٸی خدا سے ممکن ہے
دکھوں کی چاہیۓ لیکن سیاہ رات کسے
سوال یہ ہے کہ بیزار دار کی زینت
ستم شعار بناٸیں گے میرے ساتھ کسے
خالد عنبر بیزار عشق کا ستم رسیدہ ہے وہ رباب کی بات کرتا ہے لکن نگاہ نظر کی جنبش کا منتظر ہے کہ جس سے قسمت کے سکندر بنتے ہیں ایسے سکندر جنہیں فرقت کے کانٹےنہیں چھبتے بلکہ وصل کے پھول ان کو مہکا دیتے ہیں درد دروں کے لہو لہو عکس کو وہ رقص میں بدل کر زندگی کا لطف کچھ اس طرح لیتا ہے:۔
رباب چھیڑے تمنا حیات رقص کرے
پلا کچھ ایسی نظر سے کہ رات رقص کرے
بس ایک جنبش ابرو تری جو ہو جاٸے
یہ میکدہ تری نظروں کے ساتھ رقص کرے
خالد بیزار عنبر بھوک و افلاس کے غم سے نکلنا چاہتا ہے لیکن بھوک و افلاس کے عفریت اس کو نگلنا چاہتے ہیں ایسا معاشرہ جہاں فانی دنیا میں مغلیہ دور کی طرح بڑی بڑی عمارتیں بنگلے اور ایسی ایسی گاڑیاں کہ آنکھیں دیکھ کر خیرہ ہو جاتی ہے، جاٸیدادیں بادشاہوں جیسی لیکن حالت بھکاریوں جیسی کیونکہ زر اور زمین رکھنے کے باوجود جو سخی نہیں ہے وہ بالکل بھکاری کی ہی طرح ہے کہ جس کے خزانوں
سے بھوکے سیراب نہ ہو سکیں جس کے مال سے مریض دوا نہ لے سکیں وہ بھوکا ہےننگا ہے جس کا ہمسایہ اس کی صلہ رحمی سے محروم ہے۔ اسی کرب اور اسی درد کے لہو لہو عکس احتجاج شدید کے خدوخال خالد عنبر بیزار کے ان اشعار میں ملاحظہ فرماٸیں: ۔
بھوک کی کوٸی خود کشی روکے
میں بھی جاوں نہ جھول شاخوں پر
باغ ویراں نہ کر، تو رہنے دے
میرے حصے کے پھول شاخوں پر
محبوب کے حسن و جمال کی کون تعریف نہیں کرتا۔ محبوب کا چہرہ ، پلکیں ، رخسار، گلابی ہونٹ، جھیل جیسی آنکھیں ، سرو قد اور حسین زلفوں کو بہت سے شعرا نے زینتِ قلم بنایا ہے بس رنگ اپنا اپنا ہے ۔ خالد عنبر بیزار یوں رقم طراز ہے: ۔
چاند آٸینہ تیرا شب نقاب ہے تیرا
کیا غضب سی قامت ہے کیا شباب ہے تیرا
میں کسی کو کیوں دیکھوں تجھ کو دیکھنے
کے بعد
میرے دل کی حسرت پر انتساب ہے تیرا
دکھوں کا بوجھ اٹھا کر جو کرب کی دولت ملتی ہے وہ بھی انسان کو دردوں کا نواب بنا دیتی ہے۔ بھوک پیاس غربت و افلاس برداشت کر کے والدین بچے کو پڑھاتے ہیں تاکہ بچہ معاشرے کا کار آمد رکن بنے اور دوسروں پر بوجھ نہ بنے لیکن جب علم حاصل کر کے ” ڈگری ہولڈر“ ہونے کے باوجود نوکری نہ ملے تو ایسے خیالات خالد عنبر بیزار یوں نوک قلم سے کاغذ پر بکھیرتا ہے: ۔
احاطہ تجھ سے ہے ممکن کہاں مرے غم کا
زمین درد کا میں آسمان ٹھہرا ہوں
اٹھاۓ ہاتھ میں اب ڈگریاں کدھر جاوں
گلی گلی میں تو عبرت نشان ٹھہرا ہوں
خالد عنبر بیزار حدیقہ ٕ فکر میں رحمانی عطاوں کی مہکار کے آثار سجا کر اظہار کے گلدانوں میں مضامین نو بہ نو کو کس طرح سجاتا ہے۔ چشمہ فکر و نظر کے شفاف پانی میں ڈوب کر اس نے عشق رسولﷺ میں یہ شعر اس طرح رقم کیا ہے:۔
گزرا نہ ہو جو عشق محمدﷺ میں دوستو!
ایسا مری حیات میں لمحہ کوٸی نہیں
بیزار ان ستاروں کے شہر میں
چہرے کھلی کتاب ہیں پڑھتا کوٸی نہیں
یادِ یار سے دل کو سجاٸے ہوٸے خالد عنبر بیزار ہر غم سہتا ہے، ہر طوفان سے ٹکراتا ہے۔ اس کے زندگی میں سراب ہے جس میں پیاس رگ جاں کو بھی خشک کر دیتی ہے۔ حیات اس کے لیے غم کا دریا ہے صحرا میں دکھوں کی چاندنی اس کے دکھ میں اضافہ کر دیتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے:۔
طوفان گردوبار ہے صحرا کی چاندنی
میں اور کسی کی یاد ہے صحرا کی چاندنی
بعد از خدا ازل سے ہے جو مجھ پہ مہربان
بیزار ان کی یاد ہے صحرا کی چاندنی
ہمارے معاشرے میں سٹیٹس کے بت ہیں جن کو پوجا جارہا ہے۔ کسی بھی محکمے میں چلے جاٸیں یا کسی بھی محفل میں چلے جاٸیں ہر طرف سٹیٹس کو پوجا جاتا ہے۔ میں نے تواس بت پرستی میں اردو ادب کے بڑے بڑے ناموں کو پوجا کرتے دیکھا ہے۔ اگر ایک محفل میں کوٸی کلام ایک مزدور سناٸے تو اس کو داد نہیں ملتی لیکن اگر وہی شعر کوٸی پروفیسر یا وکیل سناٸے تو واہ واہ کی فلک شگاف داد سننے کو ملتی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہےہیں اس میں سٹیٹس کے بت کو گرانے کے لیے کوٸی محمود غزنوی آٸے تو یہ بت ٹوٹ کر منہ کے بل گریں گے اور جتنا جھوٹ ہمارے وطن کے سیاست میں چل رہا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو
ہمارے ملک کی سیاسی مہم ہی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ ہر بار جھوٹ سن کر ہم پھر جھوٹ کو ہی ووٹ دیتے ہیں خالد عنبر بیزار سٹیٹس اور جھوٹ دونوں سے نالاں ہے اور اس کا یوں اظہار کرتا ہے:
کھدر کی پوشاک کی کوٸی قدر نہیں
ریشم کے ہر سوٹ کی تیرے شہر میں ہے
دیکھ وہی بیزار ہے اونچے منصب پر
عادت جس کو جھوٹ کی تیرے شہر میں ہے
محبوب کے ملنے سے زندگی کا سرور حاصل ہوتا ہے۔ یہی سرور خالد عنبر بیزار بھی وصل کے لمحات سے کشید کرتا ہے۔
ہر سمت تھا اندھیرا جب تم نہیں ملے تھے
دیکھا نہ تھا سویرا جب تم نہیں ملے تھے
تنہاٸیاں تھیں، ہم تھے اور غم کے سلسلے تھے
جیون تھا ایک صحرا جب تم نہیں ملے تھے
خالد عنبر بیزار کی کتاب ” چاندنی سے دیا جلاتے ہیں“ کو میں جوں جوں پڑھ رہ ہوں خوبصورت سے خوبصورت شعر عقل وفہم پہ دستک دے رہا ہے۔ میرے لیے اشعار کا چناٶ مشکل ہو گیا ہے کیونکہ یہ خالد عنبر بیزار کے دل سے نکلی ہوٸی باتیں ہیں۔ ان کو جتنا کھولیں گے صدف سے گوہر نکلتے جاٸیں گے ۔ تبصرے کے آخر میں چند اشعار آپ دوستوں کی نذر کرتا ہوں :۔
ہم تم میں کوئی بات تو اک جیسی ملی ہے
جھیلے ہیں زمانے میں الم ایک طرح کے
شکوہ یہ نہیں تو نے مجھے چھوڑ دیا ہے
ہر شخص کے ہیں مجھ پہ کرم ایک طرح کے
ان کی چوکھٹ پہ سجدوں کی اک بھیڑ ہے
بت کدے سے مجھے سر اٹھانے کا غم
چوٹ پر چوٹ کھاٸی توایسا لگا
چوٹ بھی دے گٸی مسکرانے کا غم
خالد عنبر بیزار کی کتاب کی آخری غزل کے شعر ملاحظہ فرماٸیں: ۔
مجھے تو فاقہ کشی نے نہ تیرا ہونے دیا
تجھے میں کیسے بتاتا ، یہ میرا وعدہ تھا
کسی نے روٹھ کے نظریں ہی پھیر لیں مجھ سے
میں جان دے کے مناتا ، یہ میرا وعدہ تھا
میری دعا ہے کہ رب دو جہاں خالد عنبر بیزار کو صحت کاملہ اور رزق کثیر سے نوازے وہ اردو ادب کا اک درخشاں ستارہ ہے ۔ وہ جگمگاٸے گا تو روشنی ہوگی اور تیرگی کا دور چھٹے گا۔ میں اکادمی ادبیات سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اٹک کے ” ساغر صدیقی“ کو بچا لیجیے کیونکہ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو حشر تک قلم بھی روٸے گا اور کاغذ بھی کیونکہ کدورتوں سے بھرے جہاں میں کوٸی تو پیار کرنے کی بات کرے ، کوٸی تو سراب زندگی میں مثل آب زم زم ہو کوٸی تو تیرگی کے دامن میں سحر سے اجالا بھر دے ، کوٸی تو الفاظ سے گوہر تراشے ، کوٸی تو عشق ومستی کی بات کرے ۔ کوٸی تو دل کے مندر سے بت گراٸے ، کوٸی تو چاندنی سے دیا جلاٸے کیونکہ خالد عنبر بیزار بھی تو چاندنی سے ہی دیا جلاتا ہے۔
سیّد حبدار قائم
آف غریب وال
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔