صغیر ملال…تعارف و کلام
محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور)
پتے گرے تو کونپلیں پھوٹیں خیال کی
موسم وہی بہار ہے جو ساز گار ہو
لَب بستگی کے رستے وہ جب آشکار ہو
خاموش کیوں نہ اس کا یہاں راز دار ہو
صغیر ملال (پیدائش: 15 فروری 1951ء – وفات: 26 جنوری 1992ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار اور مترجم تھے۔
اُردو غزل کے عمدہ شاعر صغیر ملال15فروری1951ء کو راول پنڈی کے قریب پوٹھوہار کے پہاڑوں میں آباد اوسط درجے کے زمیں داروں کے ہاں ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ کراچی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ انہوں نے بہت مختصر وقت میں بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور ناول نگار تھے۔صغیر ملال کراچی میں ایک اشتہاری کمپنی سے وابستہ رہے ۔
صغیر ملال شاندار شاعر، افسانہ نویس اور ناول نگار ہیں۔ 50 کی دہائی میں ان کا پہلا افسانہ مجموعہ ’’انگلیوں پر گنتی کا زمانہ‘‘ منظر عام پر آیا اور اہل ادب نے اسے بہت پذیرائی بخشی۔ انہوں نے علامتی اور تحریری افسانے لکھے۔ صغیر ملال نے جس مہارت اور سلیقے سے ان افسانوں کا اردو میں ترجمہ کیا وہ قاری کو حیران کردیتی ہے۔
انہوں نے یورپ اور امریکہ کے مشہور افسانہ نگاروں کی بہترین کہانیوں کا انتخاب کیا ہے جو ’’بیسویں صدی کے عظیم افسانے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ صغیر ملال وسیع النظر بھی ہیں اور وسیع المطالعہ بھی۔ یہ کتاب پڑھ کر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے نقاد بھی ہیں اور صاحب بصیرت بھی۔
صغیر ملال کو مطالعے کا شوق دیوانگی کی حد تک تھا۔ مشاہدے کی خاطر اندھی گلیوں اور اندھیرے لوگوں سے معانقے کئے۔ صغیر ملال ہمہ وقت مضطرب،تیراکی، جوگنگ، مرغ بازی، پتنگ بازی اور کتے پالنے کا شوق تھا۔ صغیر ملال پر اردو کے ثقہ اور تجریدی ادب کا غلبہ ہے اور وہ ان ادیبوں میں شامل ہیں جو قارئین کی تعداد کی پروا نہیں کرتے۔ چند منتخب قارئین اور کبھی محض اپنا اطمینان ان کے لئے بہت ہوتا ہے۔
صغیر ملال 26 جنوری، 1992ء کو کراچی پاکستان میں وفات پاگئے۔ادبی حلقوں کواُن سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں جو ان کی ناوقت موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئیں۔ ان کی شائع شدہ کتابوں میں اختلاف (شاعری 1981ء، نروان پبلشرز کراچی ) بے کار آمد (افسانے 1989ء ،، نروان پبلشرز کراچی) نابود (ناول) آفرینش (ناول 1985ء،، نروان پبلشرز کراچی) انگلیوں پر گنتی کا زمانہ (افسانے)اور بیسویں صدی کے شاہکار افسانے (تراجم) شامل ہیں۔
صغیر ملال کی آٹھ منتخب اُردو غزلیات ملاحظہ فرمائیں :
(1)
کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دُیتے
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے
دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے
زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے
(2)
الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہگزر میں ہیں
وگرنہ لوگ تو سارے اسی سفر میں ہیں
ہماری جست نے معزول کر دیا ہم کو
ہم اپنی وسعتوں میں اپنے بام و در میں ہیں
یہاں سے ان کے گزرنے کا ایک موسم ہے
یہ لوگ رہتے مگر کون سے نگر میں ہیں
جو در بدر ہو وہ کیسے سنبھال سکتا ہے
تری امانتیں جتنی ہیں میرے گھر میں ہیں
عجیب طرح کا رشتہ ہے پانیوں سے ملالؔ
جدا جدا سہی سب ایک ہی بھنور میں ہیں
(3)
کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے
کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے
جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے
زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے
(4)
کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے
دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے
کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے
واقعی نور لیے پھرتے ہیں سر پہ کوئی
اپنے اطراف جو سایہ نہیں رہنے دیتے
زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملالؔ
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے
(5)
جسے سناؤ گے پہلے ہی سن چکا ہوگا
مجھے یقین ہے یہ ایسا واقعہ ہوگا
یہاں تو اب بھی ہیں تنہائیاں جواب طلب
وہ پہلے پہل یہاں کس طرح رہا ہوگا
جو آج تک ہوا کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے
کوئی بتائے یہاں اس کے بعد کیا ہوگا
خلا میں پائیں گے تارا جو دور تک نکلیں
پھر اس کے بعد بہت دور تک خلا ہوگا
سمجھتا ہوں میں اگر سب علامتیں اس کی
تو پھر وہ میری طرح سے ہی سوچتا ہوگا
قدیم کر گئی خواہش جدید ہونے کی
کسے خبر تھی یہاں تک وہ دائرہ ہوگا
شکستہ پائی سے ہوتی ہیں بستیاں آباد
جو اب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہوگا
پسند ہوں گی ابھی تک کہانیاں اس کو
وہ میرے جیسا کوئی اب بھی ڈھونڈتا ہوگا
فضا زمین کی تھی اتنی اجنبی کہ ملالؔ
ستارہ وار کہیں راکھ ہو گیا ہوگا
(6)
کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے
جبکہ ہر شخص یہاں آبلہ پا ہوتا ہے
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
سوچنے والوں کے سینے میں خلا ہوتا ہے
لوگ اس شہر کو خوش حال سمجھ لیتے ہیں
رات کے وقت بھی جو جاگ رہا ہوتا ہے
گھر کے بارے میں یہی جان سکا ہوں اب تک
جب بھی لوٹو کوئی دروازہ کھلا ہوتا ہے
فاصلے اس طرح سمٹے ہیں نئی دنیا میں
اپنے لوگوں سے ہر اک شخص جدا ہوتا ہے
میرے محتاج نہیں ہیں یہ بدلتے موسم
مان لیتا ہوں مگر دل بھی برا ہوتا ہے
چاندنی رات نے احساس دلایا ہے ملالؔ
آدمی کتنے سرابوں میں گھرا ہوتا ہے
(7)
میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں
بلند ہوتا فضا میں کہیں دھواں دیکھوں
عبث ہے سوچنا لا انتہا کے بارے میں
نگاہیں کیوں نہ جھکا لوں جو آسماں دیکھوں
بہت قدیم ہے متروک تو نہیں لیکن
ہوا جو ریت پہ لکھتی ہے وہ زباں دیکھوں
ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں
میں خود کو اجنبی لوگوں کے درمیاں دیکھوں
خیال تک نہ رہے رائیگاں گزرنے کا
اگر ملالؔ ان آنکھوں کو مہرباں دیکھوں
(8)
خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے
اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے
اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب
خاک پر اس کا امیں آب رواں ہوتا ہے
سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے
ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں
ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے
کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملالؔ
جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے
٭
صغیرملال کے کلیات سے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں :
ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں
میں خود کو اجنبی لوگوں کے درمیاں دیکھوں
٭
زمانے بھر سے الجھتے ہیں جس کی جانب سے
اکیلے پن میں اسے ہم بھی کیا نہیں کہتے
٭
ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے
کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے
٭
روشنی ہے کسی کے ہونے سے
ورنہ بنیاد تو اندھیرا تھا
٭
تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر
ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے
٭
بس اس خیال سے دیکھا تمام لوگوں کو
جو آج ایسے ہیں کیسے وہ کل رہے ہوں گے
٭
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
٭
گھر کے بارے میں یہی جان سکا ہوں اب تک
جب بھی لوٹو کوئی دروازہ کھلا ہوتا ہے
٭
تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکہ ہیں
اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا
٭
سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے
٭
ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا
سب سے پہلا آدمی خود سے جدا کیسے ہوا
٭
سمجھتا ہوں میں اگر سب علامتیں اس کی
تو پھر وہ میری طرح سے ہی سوچتا ہوگا
٭
شکستہ پائی سے ہوتی ہیں بستیاں آباد
جو اب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہوگا
٭
ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملالؔ
وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ہے وہی
٭
میرے بارے میں جو سنا تو نے
میری باتوں کا ایک حصہ ہے
٭
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
٭
اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا
حوالہ جات :
٭(کتابیات)
1۔پیمانہ ٔ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:406
2۔ پاکستان کرونیکل، ورثہ ،عقیل عباس جعفری،فضلی سنز، کراچی، 2010ء، صفحہ :697
3۔وفیات ناموران پاکستان، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء،صفحہ: 425
4۔آشوبِ سندھ اور اُردو فکشن، سید مظہر جمیل،کراچی، اکادمی بازیافت 2002ء صفحہ: 312- 300
5۔غزلیں، صغیر ملال’’ فُنوُن‘‘ لاہور ،سالنامہ ، جون جولائی 1981ء ،صفحہ: 490
6۔ پاکستانی ادب ، از : ڈاکٹر امجد رشید ، اکادمی ادبیات ، اسلام آباد ، 2009ء ، صفحہ : 575
٭(آن لائن /ویب سائٹس )
1۔وِیکی پیڈیا ( اُردو)
2۔دنیا /کتابوں کی دنیا 24.10.2021/3856
3۔ سوانح و تصانیف4564/
٭٭٭
محمد یوسف وحید
مدیر: شعوروادراک خان پور
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔