ساغر سم سلطان محمودبسملؔ کی غزلیات کامجموعہ ہے۔ غزل اپنی ہیئت میں مختصر گوئی کاایسافن ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ جدیدسائنسی ایجادات کی وجہ سے فاصلے سکڑ رہے ہیں۔ نت نئی حقیقتوں میں شب وروز اضافہ ہورہا ہے اور ان کے اظہار کے لیے جس موزوں ذریعہ کی ضرورت ہوسکتی ہے، وہ غزل ہی کاسانچہ ہے جس کاکینوس اس قدروسعت حاصل کرچکا ہے کہ حسن وعشق کے لطیف جذبات واحساسات سے لے کرسیاسی اورنفسیاتی الجھنوں تک کے نئے نئے پہلوغزل کے اشعارمیںبڑی خوب صورتی سے ڈھل جاتے ہیں اور انسانی ذہن کے لیے مستقل جمالیاتی حظ کاذریعہ بنتے ہیں۔ جدیددور کے انسان کی ازحد مصروف زندگی میں اب پہلے جیسی طویل نثری وشعری تحریریں پڑھنے کے لیے فرصت کم سے کم ہوتی جاتی ہے مگر اس کم فرصتی کے باوجود اُردو غزل اپنی جاذبیت کو پوری طرح قائم رکھے ہوئے ہے۔
سردارسلطان محمودبسملؔ نے بھی غزل ہی کواظہار کے لیے موزوں خیال کیا ہے اور وہ ایسے دورمیں غزل کہہ رہے ہیں جس میں شعری ادب کی ہرروایت کوناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کرسرسے اتار پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ دور کے لکھاری کوشاید اس بات کاابھی کوئی احساس نہیں کہ ماضی سے کٹ کر اسے کیا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ بہرحال وہ اپنے جدیدتخلیقی رویے سے کئی خوب صورت الفاظ مسحورکن MYTHSٹکسالی تراکیب اور لطیف علامات سے محروم ہوچکا ہے۔ نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ اورتراکیب کی بھرمارسے شعری ادب اپنی فطری ملائمت اور روانی کھو کر اجنبی راہوں میں خاک بسر راہی دکھائی دینے لگا ہے۔ کوئی مابعدادبی روایت اگر تخلیقی اذہان کے لیے مسموم فضا پیدا کرتی ہے تو قلم برداشتہ جدت طرازی بھی بھونڈے تجرباتی رویے کوجنم دیتی ہے جس طرح بہتے پانی میں عکس دھندلے اورنقش بگڑے ہوئے نظرآتے ہیں۔ خشک تجرباتی فضا بھی زندگی کے لطیف جمالیاتی پہلوئوں کواپنے اصلی رنگوں میںپیش نہیں کرپاتی جس سے قاری اورقلمکار کے درمیان رابطے کی فضا فاصلوں میں بدل کر دھندلانے لگتی ہے۔
مگرسردارسلطان محمودبسملؔ نہ توکسی ادبی روایت کی غلامانہ پابندی کے قائل ہیں اورنہ مجرد جدیدیت کاسہارا لے کرشعرکہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل کے اشعارعام طورپر واضح رنگوں اورتھرکتی روشنیوں کاعکس دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی غزل عام فہم اورہرقسم کے ابہام سے پاک ہے۔
بسملؔ اپنے قاری کوکسی قسم کے امتحان میں نہیں ڈالتے۔ اُن کے شعری مطالب الفاظ کی فطری سطح پرلکھے صاف پڑھے جاتے ہیں ۔تہہ میں کہیں کچلے یا مسلے ہوئے نہیں ملتے۔سردار سلطان محمودبسملؔ نہ توکانوں سے دیکھنے کاکام لیتے ہیں اور نہ کبھی آنکھوں سے سونگھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامت درعلامت الجھاؤ ان کی شاعرانہ طبیعت کے خلاف ہے۔وہ برملا بات کہنے کے عادی ہیں اوریہی رویہ ان کی غزل میں نکھر کرسامنے آتاہے۔ سردار سلطان محمودبسملؔ آج تک کی اُردوغزل کی تواناروایت کاپورااحساس رکھتے ہیں اورجدید غزل کے شعری رجحانات سے بھی ناآشنا نہیں۔
مآخذ: ساغر سم
پروفیسرنجمی صدیقی
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔